قبرستان کی تعمیر

صوبائی حکومت کی جانب سے پشاور میںنئے قبرستان بنانے کے اعلان کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ اس حوالے سے حکومتی سطح پر وسیع پیمانے پر اقدامات سامنے آئیں گے اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ صوبائی دارالحکومت کے شہریوں کے لئے اب دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں والی صورتحال ہے پشاور میں مقیم اضلاع کے مکینوں کا نوے فیصد سے زائد بلکہ ننانوے فیصدافراد اپنے آبائی قبرستانوں میںاپنے پیاروں کی تدفین کی روایت رکھتے ہیں جبکہ مضافاتی علاقوں کے لوگوں کے اپنے قدیمی و آبائی قبرستانیں ہیں ایسے میں محدود لوگ ہی رہ جاتے ہیں جنہیں قبر کی جگہ کی ضرورت پڑتی ہے مگر یہ محدود تعداد بھی کم نہیں کافی ہے قبرستانوں میں جگہ کی ناپیدگی اپنی جگہ اس کی ایک بڑی وجہ وقف قبرستانوں پر قبضہ اور قبرستانوںکی اراضی کوآبادی میں شامل کرنا ہے اس پر حکومتی اقدامات کی ناکامی سب کے سامنے ہے اس ساری صورتحال کے تناظر میں کسی بڑے اور وسیع قبرستان کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے تاہم صوبائی کابینہ نے پولیس سروس کو صوبائی مینجمنٹ سروس کے اصولوں پر ڈھالنا ہے۔ پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی سفارشات پر کابینہ نے پی ڈی اے کو اپنے وسائل سے پشاور میں دو مناسب جگہوں پر قبرستان بنانے کی اجازت دی ہے۔اس میں ان قبرستانوں کی وسعت اورمقام دونوں کا تعین ابھی باقی ہے پی ڈی اے کی زیادہ تر توجہ حیات آباد کے مکینوں کے لئے قبرستان کی اراضی کا حصول رہا ہے ایسے میں دو میں سے ایک قبرستان کی اراضی شاید حیات آباد کے مکینوں ہی کے لئے حاصل کی جائے بہرحال پی ڈی اے اگر وسیع اراضی حاصل کرکے قبرستان کا ا نتظام کرتی ہے تبھی اس سے تدفین کی مشکلات میں کمی آئے گی۔

مزید پڑھیں:  ترا نام لکھنا کتاب پر ٍ ترا نام پڑھنا کتاب میں