پانچ جنوری کو یوم حق خود ارادیت کے موقع پر مظفرآباد میں ایک جلسہ ٔ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری انوارالحق نے آزادکشمیر میں جہادی کلچر کی واپسی کا اعلان کیا ۔انہوںنے مجمع میں لگنے والے الجہاد الجہاد کے نعروں کا بازو ہلا کر بلند آواز میں جواب دیا ۔ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج کو نکالنے کے آزادکشمیر کو حقیقی بیس کیمپ بنائیں گے ۔وزیر اعظم چوہدری انوارالحق کے اس اعلان نے بحث کے کئی نئے دروازے کھول دئیے ہیں ۔آزادکشمیر کے وزیر اعظم کے اس اعلان کی آنچ کودھیما کرنے کے لئے آزادکشمیر کے وزیر اطلاعات مظہر سعید شاہ نے جہاد کی دوسری تشریحات اورتفصیلات بھی بیان کیں ۔مظہر سعید شاہ جو خود عہد جوانی میں ایک معروف وعسکری کمانڈر رہ چکے ہیں کاکہنا تھا کہ جہاد کی کئی قسمیں ہیں جن میں زبان اور قلم سے جہاد بھی شامل ہے مگر چوہدری انوارالحق کا بیان حالات کے تالاب میں ارتعاش پیدا کر چکا تھا ۔بھارتی میڈیا نے اس بیان پر حسب روایت شوروغل مچادیا ۔وہ یہ بحث کرنے لگے کہ کیا آزادکشمیر سے دوبارہ مقبوضہ کشمیر میں مداخلت شروع ہو نے جا رہی ہے ۔وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری انوارالحق کے اس بیان کو حکومت پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی کا پیش خیمہ بھی قرار دیا جانے لگا ہے ۔اس بیان پر پہلا ردعمل راولاکوٹ کی جیل توڑ کر فرار ہونے والے کمانڈر غازی شہزاد نے ایک طویل وڈیو بیان کی صورت میں دیا ۔جیل سے فرار ہونے کے بعد بھی زیر زمین ہیں اور آزادکشمیر پولیس کی طرف سے انہیں گرفتار کرنے کی تمام کوششیں اب تک ناکام ہو چکی ہیں ۔غازی شہزاد نے اپنے طویل بیان میں کہا کہ چوہدری انوار الحق جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے احتجاج کے بعد زچ ہو نے کے بعد عوام میں اپنی ساکھ بحال کرنے کے لئے یہ نعرے لگا رہے ہیں ۔ان کا کہناتھا کہ چوہدری انوارلحق نے پولیس کو انہیں دیکھو اور گولی مارو کے احکامات جاری کئے تھے ۔قرآن وحدیث کے حوالوں اور اپنے ساتھ بیتنے والی داستان کے بعد غازی شہزاد نے چوہدری انوارالحق کو پیشکش کی کہ اگر وہ اپنے اعلان پر عمل درآمد کے لئے اقدامات اُٹھائیں گے تو وہ ان کی مکمل حمایت کریں گے ۔اس کے چند دن بعد متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین کی طرف سے وزیرا عظم آزادکشمیر چوہدری انوار الحق
کے بیان کا خیرمقدم کیا گیا اور کہا گیا کہ آزادکشمیر کو بیس کیمپ بنانے کے اعلان پر عمل درآمد کے لئے اقدامات کئے جانے چاہئے۔جہاد کونسل کے ترجمان سید صداقت حسین کی طرف سے جاری کئے اس بیان میں کہا گیا کہ متحدہ جہادکونسل کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سید صلاح الدین نے کہا کہ کشمیر ی عوام کی پرامن جدوجہد کی ناکامی کے بعدہی کشمیری قوم نے عسکری جدوجہد کا راستہ اختیارکیا تھا ۔پانچ اگست 2019کے بعد کشمیر میں بھارتی اقدامات نے اس حقیقت کو مزید واضح کر دیا ہے کہ عسکری جدوجہد ہی ان کے خوفناک عزائم کا توڑ اور آزادی کشمیر کے لئے راہ متعین کر سکتی ہے۔ چوہدری انوارالحق کا یہ بیان محض زیب ِداستاں کے لئے تھا ،ہجوم کو گرمانے یا گرم جذبات کے حامل ہجوم کی لہروں میں بہہ جانے کا انداز تھا مگر اس نے بہت سوں کو چونکا دیا ہے ۔بالخصوص پانچ اگست 2019کے بعد آزادکشمیر کی قیادت کی طرف سے اسے پہلا سخت بیان قرار دیا جارہا ہے ۔آزادکشمیر کے وزیر اعظم سے بلا سوچے سمجھے اس طرح کے بیان کی توقع بھی عام آدمی نہیں کر سکتا کیونکہ پانچ اگست کے بعد جس طرح آزادکشمیر سکون اور سکوت کی چادر اوڑھ کر سو گیا تھا اس نے نہ صرف کنٹرول لائن کی دوسری طرف لوگوں کو مایوس کیا تھا بلکہ آزادکشمیر کے شہریوں نے بھی یہ سمجھ لیا تھا کہ کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کا یہ فیصلہ اب مقدر کا لکھا ہوا ہے اور اس معاملے میں دہلی اور اسلام آباد کی ہم آہنگی بھی ہے ۔اس وقت آزادکشمیر کے وزیر اعظم راجا فاروق حیدر خان نے تو پانچ اگست کے بعد کئی ماہ تک بیرون ملک قیام کئے رہے اور اس دوران آزادکشمیر میں ایک جلسہ اور جلوس بھی نہیں ہوا۔رسمی احتجاج کی نوبت بھی نہ آسکی ۔حد تو یہ کل جماعتی حریت کانفرنس آزادکشمیر شاخ کے لب بھی سِل کر رہ گئے تھے ۔اس پس منظرمیں چوہدری انوارالحق کے بیان سے بہت سوں کا چونک جانا فطری ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ آزادکشمیر میں نوئے اور دوہزار کی دہائیوں میں جہادی کلچر پورے زوروں پر رہا ۔جب مظفر آباد کے گلی کوچوں میں کشمیری حریت پسند تنظیموں کے دفاتر اور ان کے سائن بورڈز دیکھنے کو ملتے تھے ۔عسکری نوجوانوں کے نان کسٹم ویگو ڈالے فراٹے بھرتے ہوئے سڑکوں پر نظر آتے تھے اور
بڑے بڑے جلسے جلوس منعقد ہوتے تھے ۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے اعلان اسلام آباد کے بعد یہ ساری قالین لپیٹنے کا عمل شروع ہو گیا ۔اعلان اسلام آباد میں دونوں ملکوں کے درمیان اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا ۔جس کے بعد حریت پسندتنظیموں کو بتادیا گیا تھا کہ ان کا کھیل اب ختم ہو گیا اور حکومت پاکستان اب انہیںکسی قسم کی چھوٹ دینے پر قادر نہیں رہی ۔یہ وہی دور تھا جب امریکہ پاکستان پر افغانستان میں ڈبل گیم کا الزام عائد کرکے اقوام متحدہ اور فیٹف کے ذریعے پاکستان کی کلائی مروڑ رہا تھا ۔اب دنیا کے حالات میں ایسی کونسی تبدیلی آئی ہے کہ حکومت پاکستان کو اپنی پرانی پالیسی کی طرف لوٹنے کی سہولت حاصل ہو گئی ؟۔بظاہر عالمی اور علاقائی حالات میں ایسی کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔اسی لئے وزیر اعظم چوہدری انوارالحق کے اس بیان کو حالات کے دھارے میں” متعلق ”رہنے کی ایک کوشش ہی قرار دیا جارہا ہے ۔ آزادکشمیر کے اندر زمینی سطح بھی پر ایسی کسی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے ۔ دودہائیاں قبل جس آزادکشمیر سے بہت محنت کے ساتھ جہادی کلچر کا صفایا کیا گیا تھا اس جہادی کلچر کے احیاء اور واپسی کی کوئی صورت نظر آتی ہے اور نہ اس کا کوئی امکان ہے ۔یوں بھی اس طرح کے نعروں سے آزادکشمیرکے وسائل بے مقصد مہمات میں صرف ہونے کا خطرہ ہے۔پھر کئی مقامات پر جس طرح جہاد کی اصطلاح کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے اس سے کشمیریوں کی تحریک بھی دنیا کی طرف سے معاندانہ رویے کا شکار ہو سکتی ہے ۔ جس سوئچ کو بہت محنت سے آف کیا گیا تھا اب اسے آن کرنے کی کونسی مجبور اور ضرورت آن پڑی ہے ۔اس پر جوش ملیح آبادی کا یہ شعر صادق آتا ہے ۔
بگاڑ کر بنائے جا اُبھار کر مٹائے
میں ترا چراغ ہوں جلائے جا بجھائے جا
