قیادت کا بحران

مُلک میں سیاسی عدم استحکام ، بے یقینی اور بقول ناصر کاظمی ” اُداسی بال کھولے سو رہی ہے ۔” کوئی ادارہ ایسا نہیں جو بد نظمی کا شکار نہ ہو ، ہرعوامی نمائندہ اور ان کے حامی اپنے مخالفین کو بّرا بھلا کہہ رہے ہیں ۔ اگر ہمارے یہ سیاسی رہنما سچ بول رہے ہیں تو پھر ایک سیاست دان بھی ایسا نہیں جس نے ماضی میں مُلک کانقصان نہ کیا ہو اور اب اس کی بیخ کنی نہ کر رہا ہو ۔ اگر ایسا نہیں ہے اور یہ سب اپنی سیاسی مصلحت کی خاطر جھوٹ بول رہے ہیں تو پھر یہ ساری سیاسی قیادت اپنے آپ کو اور مُلک میں جمہوری عمل کو مضحکہ خیز بنا رہے ہیں بلکہ بڑی حد تک بنا بھی دیا ہے ۔
اب یہ جملہ زبان زد عام ہو چکا ہے کہ پاکستان کے نظام میں بڑی خرابی ہے اور نظام بدلنے سے ہی حالات بہتر ہوں گے ۔ ہمارے مُلک کے نظام میں کوئی خرابی نہیں ، اصل میں ہمارا مُلک اپنی قیادت کے بحران کا شکار ہے ۔ اس وقت قوم مختلف خیالات اور نظریات میں تقسیم گروہ ہے۔ ہم مذہب میں بھی تفریق کا شکار، ہم سیاست میں تقسیم کا شکار اور نفرت کرنے میں تو ہمارا کوئی ثانی نہیں ۔ کیا قیادت آسمان سے اترے گی۔ کوئی مشین ایجاد ہوگی جس میں حب الوطنی، ایمان داری ،عوام سے محبت، رواداری ، روشن خیالی اور بھلائی کرنے کے اجزا ڈالیں گے تاکہ صحیح اور صالح قیادت کا ظہور ہو سکے ۔ ہم نے اپنا جائزہ بھی لینا ہے کہ اس حوالہ سے کتنے کھرے ہیں اور ‘ جو جہاں ہے جیسا ہے ‘کی بنیاد پر کیا کر رہے ہیں۔ ارسطو نے کہا تھا، بھوک انقلاب اور جرم کو جنم دیتی ہے افسوس ہماری بھوک صرف جرائم کی افزائش کر رہی ہے ۔ اس کی کوکھ سے انقلاب ابھی تک پیدا نہیں ہوا۔نظام بدلنے والے صرف نعرے بازی کر رہے ہیں جبکہ اسی نظام سے اپنے مفادات کشید کرنے میں بھی آگے ہیں ۔
جمہوری نظام دنیا کا سب سے زیادہ قابل اعتماد نظام ہے لیکن بدقسمتی سے اسے چلانے والے قابل اعتماد نہیں۔ بحران نظام کا نہیں قیادت کا ہے اور ہماری قیادت محض گھاٹے کے سودے میں پڑی ہوئی ہے ۔ معلوم نہیں ہم لوگ کب تک محو غم ِ دوش رہیں گے ، ایک خوف کی فضا طاری ہے ، کل کیا ہوگا ؟ کسی کو علم نہیں ۔ ہر بار یہی بحث ہوتی ہے کہ موجودہ حکومت اور اس کے نظام میں کس طرح کی تبدیلی لائی جائے کہ حالات بہتر ہو جائیں ۔ اگر دیکھا جائے تو مُلک میں رسمی بادشاہت کے علاوہ وہ کون سا نظام حکومت ہے جسے ہم آزما نہیں چکے ۔ تبدیلی کا بیانیہ ، اسلامی نظام ، روٹی کپڑا مکان اور ووٹ کو عزت دینے کے علاوہ کیا کچھ نہیں سنا لیکن تمام دعوؤں نعروں کے باوجود ہماری قیادت کسی قسم کے غیر شخصی نظام میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی ۔ ایک بڑے سرکاری عہدہ سے ریٹائرڈ دوست اکثر یہ سوال کرتا ہے کہ کون سی قیادت ، کون سا نظریہ اور کیسی جمہوریت ؟یہاں صرف حاکم اور ظل الٰہی ہیں ۔۔یہ سیاستدان نہیں بلکہ مختلف حوالے یا کسی کی نسبت رکھتے ہیں اور ایک اکثریت ان کی دیوانی ہے ۔ لوگ کسی نظریہ یا سیاسی فکر کی بجائے صرف شخصی دام کے اسیر ہیں ۔ جبکہ دوسری طرف یہ قیادت اپنی حکومت قائم کرنے یا مخالف کی حکومت گرانے کے لیے عوام کو صرف دھرنوں ، تحریکوں ، احتجاجی جلسوں اور لانگ مارچ تک ہی عزیز رکھتے ہیں ۔ بھلا اس میں ایک دو مارے جائیں اور پندرہ بیس کارکن زخمی ہوں تو اسے سیاسی جماعتوں کے رہنما تحریک میں جان پڑنے کی علامت سمجھتے ہیں ۔ان کے نزدیک کسی چھوٹے بڑے ہنگامہ میں عام آدمی کا زخمی ہونا یا مارا جانا کوئی معانی نہیں رکھتا ۔ اقتدار کی خواہش ہماری ہر قیادت کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے اور اقتدار سے دوری اُنہیں اس قدر پریشان کر دیتی ہے کہ وہ ہر اصول سے بے نیاز ہو کر ہمہ وقت جوڑ توڑ کو اپنا شعار بنا لیتی ہے ۔ جمہوری روایت اور طریقہ تو یہ ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت منتخب ہو کر عنان
حکومت سنبھال لے تو حزب اختلاف جہاں اس کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھتی ہے وہاں یہ قومی معاملات میں تعاون بھی کرتی ہے ۔ ہمارے ہاں قیادت کے پاس ایک ہی مقبول طریقہ ہے کہ اگر اقتدار نہیں ملا تو پھر جس طرح بھی ہو سکے حکومت کو ناکام کرنے اور گرانے کے لیے ہر ایسا حربہ استعمال کیا جائے کہ وہ اقتدار کی غلام گردش میں داخل ہو سکیں ۔ اخبارات میں اربوں روپے کے اشتہارات چھاپنے ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر انقلاب کے نعرے لگانے سے انقلاب نہیں آتے ۔ بنی اسرائیل نے انحطاط کے زمانے میں ذمہ داری کے منصب ، مذہبی پیشوائی اور قومی مرتبے ایسے لوگوں کو دینے شروع کیے جو بد دیانت اور نا اہل تھے ، نتیجہ میں ایسی قیادت قوم کو خراب کرتی گئی ۔ سورة النسا ء میں اس لیے مسلمانوں کو حکم ملا کہ ” امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو ۔ ” موجودہ صورتحال اس قدر غیر یقینی ہو گئی ہے کہ قیادت نے اشتراک کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے ایک بار پھر مخالفت کی پالیسی پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے ۔ قیادت کے بحران کی وجہ سے عدم استحکام اور افرا تفری کا عالم ہے ۔ افسوس یہ ہے کہ ہماری قیادت کو نوشتہ دیوار دکھائی نہیں دے رہا ۔

مزید پڑھیں:  آج تک ہوں فقط فریب خیال میں