پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے تصدیق کی ہے کہ ان کی اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلی علی امین گنڈاپور کی آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے پشاور میں ملاقات ہوئی ہے۔پارلیمنٹ ہائوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ انہوں نے آرمی چیف کے سامنے اپنی تمام باتیں رکھ دی ہیں اور دوسری جانب سے بھی مثبت رد عمل آیا ہے۔تاہم عسکری ذرائع نے کہا کہ یہ سکیورٹی پر ہونے والی ملاقات تھی جس کو سیاسی رنگ دینا افسوسناک ہے ۔بیرسٹر گوہرکے مطابق عمران خان نے بھی اس ملاقات کو خوش آئند قرار دیا ہے ایک جانب پاکستان تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی حکومتی کمیٹی سے مل رہی ہے اور بعض مطالبات سے دستبردار ہو کرکچھ ایسے مطالبات سامنے لے آئی ہے جس سے معاملات کا رخ ایک خاص جانب مڑ سکتا ہے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے ٹی وی شو میں پہلے ہی ایک نفس ناطقہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت نے اگر کوئی غلطی کی تو بھگتنا پڑ سکتا ہے بلکہ بھگتناپڑے گا لیکن بہرحال تحریک انصاف کو کوئی نہ کوئی جواب تو دنیا ہی ہو گا جو بیک وقت براہ راست اور پس پردہ مذاکرات و معاملت میں مصروف ہے ملکی سیاست میں اسی طرح ہوتا رہا ہے یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں خود مسلم لیگ (ن) کو بھی اس کا بخوبی تجربہ ہے اسے مکافات عمل قراردیا جائے یاکچھ اور لیکن بہرحال وطن عزیز کی سیاست و حکومت میں بظاہر تو دو فریق ہوتے ہیں لیکن اصل معاملت تیسرے فریق سے نہ ہوں تو ملاقاتیں نشستند و گفتند وبرخواستند والی ملاقاتیں ہی ر ہتی ہیں البتہ ہر فریق کے حصے میں کچھ نہ کچھ آنا چاہئے ورنہ جس طرح مسلم لیگ (ن) سڑکوں پرنکل کر اپنا مقدمہ عوام تک لے گئی اور بعد ازاں تحریک انصاف نے اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر اپنا مقدمہ صرف عوام تک لے جانے پر اکتفا نہ کیا بلکہ آستین چڑھا کر دعوت مبازرت بھی دی اور معاملات کافی ایسے حد تک گئے کہ دیواروں سے سر ٹکرانا لاحاصل رہا یا کارآمداس سے قطع نظر نالے اور فریادوں کی گونج بڑی دور تک گئی جسے پراثر نہ مانیں اور درخوراعتناء نہ سمجھا جائے تو یوں غصہ تھوک کر آمنے سامنے بیٹھنا تو نہ پڑتا پنجاب میں کچھ حالات و سرگرمیوں پر نظر ڈالی جائے تو قبل ازوقت انتخابات کی تیاری کا گمان گزرنے لگتا ہے سیاسی دنیا میں منصوبے کے مطابق معاملات چلتے تو آج سامنے بیٹھنے والے بھی اپنے ہی ہونے تھے اور اس طرح کی ملاقاتوں و مذاکرات کی ضرورت تحریک انصاف کو نہیں مسلم لیگ(ن)کو درپیش ہوتی اب جبکہ ملاقاتوں کی تصدیق اور ”توثیق” دونوں ہو چکی اور توقع ہے کہ حکومت سے مذاکراتی عمل آگے بڑھے نہ بڑھے نظر یہ ضرورت کے غالب آنے کا رواج ہے اور سیاسی تاریخ کے اپنے آپ کودہرانے کی روایت کا اعادہ کسی اچھنبے کی بات نہ ہو گی حکومتی سمت کا اندازہ آنے والے چنددنوں میں ہوسکتا ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ اب حکومتی مذاکرات ٹیم کی حکمت عملی یہ ہونے جارہی ہے کہ جتنا وقت مزید نکالا جاسکتا ہے غنیمت ہو گی اور اگر دوسری جانب کسی سراب کا دھوکہ کھایا جائے تو یہ بھی خارج ازمکان بہرحال نہیں اور اگر سراب نہ بھی ہو تو بری طرح الجھی ہوئی ڈور کو سلجھاتے سلجھاتے بھی کافی وقت نکل جائے گا اور حکومت اسی کا فائدہ اٹھائے گی سیاست میں جب بھی جہاں بھی اور جس جماعت کی طرف سے ڈیل اور ڈھیل کامظاہرہ کیاگیا اس کے نتیجے میں کچھ آسانیاں رہائیاں اور پائوں رکھنے کی جگہ تو ملتی رہی ہے لیکن عوامی سطح پر اسے کبھی قبول نہیں کیا گیا اور اس کی قیمت چکانا ہی پڑی ہے اسی دو دھاری تلوار کے سامنے آج ایک مرتبہ پھرملک کی بڑی جماعت اور اس کی قیادت کھڑی ہے اب فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یاشکم کا بھی نہیں کہ اس کی گنجائش ہی نہیں گوکہ ملکی سیاست میں تقطیب کا جادو سر چڑھ بول رہا تھا لیکن معاملات سیاسی اور آواز آئیں و قانون کی بالادستی کی لگ رہی تھی اب تالاب میں اگر پتھر پھینکنے کا سلسلہ بند ہو گا اور ارتعاش کی لہریں کناروں سے ٹکرانے کا سلسلہ بند ہو گا تو اس کے بعد سیاست میں ہو کا عالم ہو نہ ہو استحکام جمہوریت و پارلیمان کی تواناآواز کان میں نہیں پڑے گی اور ملک میں سیاست و جمہوریت میں سودے بازی کا ایک نیا باب ایسے کھلے گا کہ اس سے سیاسی امیدوں پر اوس پڑ سکتی ہے سیاست کا سورج غروب اور اماوس کی رات شروع ہوگی ملکی سیاست کا اس سے بار بار واسطہ پڑنا فساد کی وہ جڑ ہے جسے مضبوط بنانے میں سیاستدان ہی اپنا کاندھا پیش کرتے آرہے ہیں بہرحال سیاسی دنیا میں ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں کا امکان ہر وقت رہتا ہے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے وہ تونظر آئے گا مگراس کے جو اثرات ہیں وہ آہستہ آہستہ اور وقتاً فوقتاًسامنے آئیں گے اصل فریق معاملہ اگر ہوش کے ناخن لیں اور حکومت و اقتدارو بے اختیار پر اکتفا کرنے کی بجائے ہر چہ باداباد پرآمادگی اختیار کریں تو معاملات کا حل پھر بھی نکل سکتا ہے مگر اس کی توقع کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔
