ویب ڈیسک: ذرائع آب کے منصوبوں سمیت ڈیم اور نہری منصوبوں کی تعمیر میں بھاری مالی نقصانات کا انکشاف کیا گیا ہے۔ ہر بار پی سی ون کی تبدیلی میں مالی تخمینہ بڑھتا ہی دکھایا گیا ہے، جس سے حکومتی خزانہ کو بھاری ٹیکا لگایا گیا ہے۔
اس حوالے سے جاری ہونے والے دستاویزات میں جن منصوبوں کا زکر کیا گیا ہے، ان میں نائی گج ڈیم دادو، حیدرآباد، ٹھٹھہ اور جام شورو کے درمیان تعمیر دروت ڈیم، خیال خواڑ پن بجلی منصوبہ، چترال کا گولن گول پن بجلی منصوبہ، الائی خواڑ پن بجلی منصوبہ، خان خورا منصوبہ اور دیر خواڑ پن بجلی منصوبوں کا زکر کیا گیا ہے۔
نہری منصوبوں کی تعمیر میں بھاری مالی نقصانات کا انکشاف دستاویز میں واضح ہیں، دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ منصوبوں کی تعمیر میں پی سی ون کئی مرتبہ تبدیل کیے گئے ، ہر پی سی ون میں لاگت میں کئی گنا اضافہ دکھایا گیا، تاہم اس حوالے سے تحقیقات نہیں ہوئیں۔
دستاویز میں وضاحت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ سندھ دادو میں 2009 سے زیر تعمیر نائی گج ڈیم کی تعمیر پر 21 ارب، اسی سال نائی گج ڈیم پر پی سی ون کے مطابق لاگت 6 ارب آنی تھی، جو 2021 کے پی سی ون کے مطابق 46 ارب روپے تک جا پہنچی۔
جاری ہونے والے دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ حیدرآباد، ٹھٹھہ اور جام شورو کے درمیان تعمیر دروت ڈیم تین ارب کے بجائے 11 ارب روپے میں مکمل ہوا، کچی کنال کے فیز ون کی 2003 کے پی سی ون کے مطابق اس پر لاگت 31 ارب روپے آنی تھی، تاہم یہ نہر 81 ارب روپے میں مکمل ہوئی اور پھر سیلاب نے اس کا نقشہ ہی بدل ڈالا، نہر کی مرمت کے لیے دوبارہ 8 ارب روپے کا مطالبہ کیا گیا۔
دستاویزات کے مطابق دریائے سندھ پر 128 میگا واٹ کا خیال خواڑ پن بجلی منصوبہ سات ارب کے بجائے 27 ارب میں مکمل ہوا، چترال میں 108 میگا واٹ کا گولن گول پن بجلی منصوبہ 17 ارب کے بجائے 38 ارب روپے میں پایہ تکمیل تک پہنچا، دریائے سندھ پر 121 میگا واٹ کا الائی خواڑ پن بجلی منصوبہ 8 ارب کی بجائے 16 ارب روپے میں مکمل ہوا۔
72 میگا واٹ کا خان خورا منصوبہ 5 ارب کے بجائے 9 ارب، 130 میگا واٹ کا دیر خواڑ پن بجلی منصوبہ 9 ارب کے بجائے 23 ارب، جبکہ نیلم جہلم منصوبہ 506 ارب روپے میں مکمل کیا گیا، حالانکہ اس کیلئے 84 ارب کی رقم کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔
