کشتی حادثہ یا کچھ اور ۔۔۔۔؟

وطن عزیز سے ہر قیمت پر نکلنے کا جو وتیرہ ہمارے نوجوانوں نے اختیار کر رکھا ہے اس کے لئے قانونی طریقے اختیار کرنے کا ہر کسی کو حق ہے لیکن کچھ حقیقی و خود ساختہ مجبوریوں کے کرن ادھار لے کر اور جائیدادیں وزیورات فروخت کرکے غیر قانونی طریقوں سے یورپ جانے کا جو راستہ اختیار کیا جاتا ہے اس کے نتائج کشتی ڈوبنے اور کشتی بیچ منجدھار میں کھڑا کرکے مار کر سمندر میں پھینکنے کے واقعات اب بڑھ گئے ہیں اس کے پس پردہ وہاں کی حکومتیں ہیں یاکوئی گروپ اس سے سروکار نہیں مگر ایسالگتا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کو روکنے کی اب یہی آخری صورت رہ گئی ہے جس سے شاید عبرت پکڑ کر یہ راہ اختیار نہ کی جائے بہرحال تازہ واقعے میں اطلاعات کے مطابق افریقی ملک موریطانیہ سے غیرقانونی طور پر سپین جانے والوں کی کشتی کو حادثہ پیش آیا ہے جس کے نتیجہ میں44پاکستانیوں سمیت50تارکین وطن ہلاک ہوگئے۔ خبر رساں ایجنسی کے مطابق86تارکین وطن کی کشتی2 جنوری کو موریطانیہ سے روانہ ہوئی تھی۔ مراکشی حکام کا کہنا ہے کہ کشتی میں کل66پاکستانی سوار تھے۔ کشتی حادثے میں36افراد کو بچالیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق12جنوری کو سپین میری ٹائم ریسکیو کو کشتی کی گمشدگی سے آگاہ کردیا تھا۔ دوسری جانب سپین میری ٹائم سروس نے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تارکین وطن کی کشتی سے متعلق معلومات نہیں تھیں۔ان واقعات کا حکومت بھی سخت نوٹس لے چکی ہے اور وزیر اعظم نے سخت ہدایات بھی جاری کی ہیں جبکہ سرکاری اداروں میں انسانی سمگلنگ کے دھندے میں مدد دینے والے اہلکاروں کی نشاندہی بھی ہو چکی ہے اس کے باوجود اس دھندے کی روک تھام کے حوالے سے پر امید ہونے کی گنجائش نظر نہیں آتی اس حوالے سے مزید سخت اقدامات کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ میں دور کے ڈھول سہانے ہونے کی حقیقی سے نوجوانوں اور ان کے والدین کو آگاہ کرنے کی بھر پورمہم چلانی چاہئے تاکہ وہ اپنے ہاتھوں خود کشی کے اسباب اختیار کرنے سے گریز کریں اور ملک و قوم کے لئے تباہی و بدنامی کا باعث بننے سے اجتناب کریں۔

مزید پڑھیں:  پاپولرازم نہیں دستور اہم ہے