افغانستان پاکستان کا پڑوسی ملک ہے ۔ پاکستان کے قیام سے ہی افغانستان پاکستان کا مخالف اور پاکستان کے خلاف کام کرنے والوں کا مرکز رہا ہے ۔ روس کے بعد پاکستان کوکچھ عرصے کے لیے افغانستان میں طالبان کی صورت ایک ایسی حکومت مل گئی تھی جس نے پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں کی تھی مگر اس کے بعد امریکہ کے افغانستان پر چڑھائی اور قبضے کے بعد وہی ساٹھ اور ستر کی دہائی کا افغانستان پھر لوٹ آیا تھا اور افغانستان کے مختلف دھڑوں اور حکومت نے پاکستان دشمن قوتوں کا ساتھ دینا شروع کردیا تھا ۔لیکن چونکہ امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کے باعث وہ بہت زیادہ کھل کر پاکستانی مفادات کے خلاف کھلے عام کام نہیں کرسکتے تھے اور چونکہ نیٹو اور امریکی فوجیوں کی نوے فیصد رسد پاکستان سے ہوکر جاتی تھی اس لیے بھی وہ افغان سرزمین اور اس وقت کی کٹ پتلی افغان حکومت جس کو شروع حامد کرزئی اور پھر اشرف غنی سنبھال رہے تھے اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ پاکستان کے ساتھ پنگا لیں ۔ پھر اچانک امریکہ کی پالیسی میں ایک نیا شفٹ آیا اور امریکہ نے افغان طالبان کو افغانستان کی حکومت اور اپنے وسائل منتقل کیے اور پرامن طریقے سے افغانستان سے نکل گیا تب پوری دنیا کا یہ خیال تھا کہ یہ سب پاکستان کے فائدے کے لیے ہورہا ہے ۔ اور طالبان کی عبوری حکومت کے آنے سے افغانستان سے ہندوستان اثر رسوخ اور پاکستان مخالف سرگرمیاں ختم ہوجائیں گی ۔مگر طالبان عبوری حکومت نے پوری دنیا کے اس خام خیال کو غلط ثابت کردیا اور افغانستان ایک مرتبہ پھر پاکستان مخالف سرگرمیوں کا مرکز بنا ۔ یہ حیرت کا مقام ہے کہ شمالی اتحاد اور دیگر افغان گروہ طالبان کی وجہ سے پاکستان دشمنی پر اُتر آئے تھے اور ہندوستان کے ہمنوا بن گئے تھے ۔ اور پھر دنیا نے افغانیوں کی نمک حرامی کا وہ چہرہ بھی دیکھ لیا کہ وہ طالبان جن کو پاکستان کا حامی سمجھا جاتا تھا وہ اب ہندوستان کے ساتھ شراکت داری کررہے ہیں ، افغانستان میں ہندوستان کی سرگرمیوں کا پھر سے بحال ہونا ، سفارتی تعلقات کا بہت ہی دوستانہ ہوجانا، کرکٹ ڈپلومیسی میں مسلسل رابطے میں رہنا اور امریکہ کے ساتھ ہندوستانی امداد سے روزانہ کی بنیاد پر فیض یاب ہونا ، بڑے بڑے منصوبوں میں ہندوستان کا افغانستان میں پھر سے امداد کی شکل میں پیسہ لگانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اشرف غنی اور حالیہ عبوری طالبان حکومت میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے ۔ اشرف غنی کو پھر امریکہ چین دشمنی اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کنٹرول کرتا تھا ۔ اب وہ سہار ا بھی نہیںہے۔ افغان طالبان ان تمام نام نہاد طالبان گروپوں کی سرپرستی کررہی ہے جو پاکستان میں بدامنی پھیلانے اور انتشار کا باعث بن رہے ہیں ۔ اس وقت پاکستان کی جنوبی اضلاع میں ان کی وجہ سے پاکستان کے اداروں اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔ پاکستان کے دفاعی ادارے انتہائی بردباری کے ساتھ اس وقت تک ان کی مداخلت برداشت کررہے ہیں اور ان کو روک رہے ہیں ۔ اگر پاکستانی ادارے اپناضبط ختم کردیں تو چند دن میں افغانستان کے اندر تک ان شرپسندوں کو چھپنے کی کوئی جگہ نہیں ملے گی مگر پاکستان عالمی قوانین اور ہمسائیگی کا لحاظ مسلسل کررہا ہے ۔ باوجود اتنا سب کچھ ہونے کے پاکستان پھر بھی لاکھوں افغانستانیوں کو وہی سہولیات پاکستان کی سرزمین پر دے رہا ہے جو آج سے چالیس برس پہلے دے رہا تھا ۔ افغان طالبان کی عبوری حکومت اب دریائے چترال جسے عرف عام میں دریا کابل کہا جاتا ہے پر پانی کا رُخ موڑنے کے منصوبے بنا رہے ہیں اور جس سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مزید خراب ہوجائیں گے ۔کالعدم تحریک طالبان کو اگر افغانستان کی عبوری حکومت مزید سپورٹ کرتی ہے اور ان کی پشت پناہی اور مدد کرتی ہے تو بھی پاکستان اس کو برداشت نہیں کرے گا ۔ پاکستان افغانستان کے لیے ہر لحاظ سے مشکلات پیدا کرسکتا ہے ۔ پاکستان سے افغانستان کسی بھی قسم کی سامان کی ترسیل بند کرکے اور تمام افغانستانی شہریوں کو پاکستان سے فوری نکال کر پاکستان افغانستان کے لیے ایسی مشکل پیدا کرسکتا ہے جس کا اس کے پاس کوئی متبادل حل موجود نہیں ہے ۔ افغانستان میں طالبان مخالف قوتوں کو جس دن پاکستان نے سپورٹ کیا اسی دن افغانستان میں موجودہ عبوری سیٹ اپ ختم ہوجائے گا اور افغانستان پھر ایک طویل خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا ۔ ٹرمپ کی حکومت آتے ہی افغانستان کو ملنے والے چالیس ملین ڈالرز کی روزانہ امداد ختم ہوجائے گی اس لیے کہ ٹرمپ خود اور اس کے مالی مشیر اس سلسلے میں کئی مرتبہ بات کرچکے ہیں اور پھر امریکہ میں لوگ افغانستان میں عورتوں کے حقوق ، انسانی حقوق اور بچیوں کی تعلیم کو لیکر پہلے سے تنقید کررہے ہیں جس میں ٹرمپ حکومت میں شدت آجائے گی ۔ ایران کے ساتھ بھی افغان طالبان کی عبوری حکومت کے تعلقات خراب ہیں اور چند متنازعہ معاملات پر ان کی سرد جنگ اپنے عروج پر ہے ۔ تاجکستان بھی شدت پسندوں کے لیے طالبان کی عبوری حکومت کے محبت اور امداد سے پریشان ہے ۔ چین کے صوبہ سنکیانگ میں طالبان کی مقامی شدت پسندوں اور ایغور قبائل کے ساتھ روابط نے چین کو پریشان کرنا شروع کردیا ہے ۔سینٹرل ایشیائی ممالک میں افغانستان کے سرحدوں سے بڑھتی ہوئی منشیات کی سمگلنگ نے ان ممالک سمیت یورپ میں تشویش پیدا کی ہے اس لیے کہ یہ زیادہ ترمنشیات وہاں سے یورپ سمگل ہوجاتی ہے ۔ افغانستان میں اس وقت طاقت کے زور پر جو گروہ مختلف علاقوں کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں وہ منشیات کی سمگلنگ اور معدنیات کی سمگلنگ کے ذریعہ بہت زیادہ پیسے کمارہے ہیں ۔جبکہ طالبان کے بیشتر گروہ اپنا حصہ نہ ملنے پر ان سے نالاں ہیں ایسے میں یہ گروہ کسی بھی ہنگامی صورت میں اپنی وفادار ی تبدیل کرسکتے ہیں ۔ افغانستان کے صوبہ نورستان اور کنٹر کو پاکستان مخالف گروہوں کے ہاتھوں میں دینے کا مطلب ہے کہ افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت پاکستان مخالف ایجنڈے پر کام کررہی ہے ۔ جب تک امریکہ افغانستان میں تھا امریکی اور ان کی اتحادی نیٹو کے افواج نے کوشش جاری رکھی تھی کہ ان کے لیے ان علاقوں میں مسائل نہ ہوں جہاں سے ان کو رسد ملتی ہے اور ان کا سارا سامان آتا ہے ۔ اب وہ تما م علاقے ان لوگوں کے اختیار میں ہیں جو پاکستان مخالف ہیں ۔ سفارتی طور پر اگر پاکستان افغان طالبان کی سپورٹ سے ہاتھ اٹھا لے تو بھی ان کے لیے بہت زیادہ مشکلات ہوسکتی ہیں ۔ ماضی کے مقابلے میں پاکستان مخالف افغان پروپیگنڈا میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے خصوصاً وہ افغانستانی جو بیرون ملک مقیم ہیں وہ اس پروپیگنڈا میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ۔ اب وہ مناسب وقت آگیا ہے کہ افغانستان کو اپنا بوجھ خود اٹھانے دیا جائے اور اس کے تمام باشندوں کو جو کسی بھی صورت میں پاکستان میں ہیں افغانستان بھیجا جائے اور ان کی غیر ضروری مدد اور حمایت ترک کی جائے ۔جس دن پاکستان نے ایسا کیا ان کو دن میں تارے نظر آنا شروع ہوجائیں گے ۔ پھر پاکستان کو اپنے شرائط پر افغانستان سے سفارتی اور تجارتی تعلقات بنانے ہوں گے ۔جس میں سرفہرست مطالبہ پاکستان قوتوں کے لیے افغانستان کی سرزمین لوگوں اور وسائل کا استعمال ختم کرنا ہونا چاہئیے۔
