ویب ڈیسک: پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ضلع صوابی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 190 ملین پاونڈ ریفرنس میں بانی پی ٹی آئِی عمران خان کو 14 سال قید کی سزا دینا انصاف ہے؟ حالانکہ وفاقی وزراء نے پہلے سے کہہ دیا تھا کہ عمران خان کو 14 سال اور بشریٰ بی بی کو 7 سال کی سزا دی جائے گی۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ ہمارا عدالتی نظام ہے، کیا یہ انصاف کا نظام ہے، کہ جس میں سزا کا پہلے سے منظور نظر افراد کو پتہ ہو، ان کا کہنا تھا کہ پیسہ ایک یونیورسٹی میں استعمال ہوا، اور اس سلسلے میں آنے والا پیسہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں گیا، کیا پیسہ عمران خان کی جیب میں گیا؟
سابق سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ عمران خان کے علاوہ کوئی فارمولا نہیں ہے، عمران خان ہی لیڈر ہیں اور وہی آئندہ وزیرِاعظم ہوں گے، میں واضح کہتا ہوں کہ ہم ایک فیصد بھی دباؤ میں نہیں آئیں گے، ہم اپنے لیڈر کے ساتھ اور ایک سوچ کے تحت کھڑے ہیں۔
ممبر قومی اسملی نے مزید بتایا کہ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات انتہائی محدوش اور نامناسب ہیں، جبکہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی پالیسی پر وفاق گامزن ہے، لیکن اگر بھارت کے ساتھ تعلقات بہتری کی جانب حکومت کوشاں ہے تو افغانستان کے ساتھ کیوں تعلقات خراب کئے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع خصوصا وزیرستان میں اس وقت ضلعی انتظامیہ کی رٹ بالکل ختم ہو چکی ہے، عوام اس حکومت سے نالاں ہیں، اس دور میں عوام کی بھلائی کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما نے کہا کہ ہم نے حکومت سے مذاکرات چند اہم وجوہات کی بنا پر شروع کیے، ہم نے حکومت کو سیاسی استحکام کے لیے مذاکرات کا موقع دیا، اور اس دوران ہم نے کوئی بڑا مطالبہ بھی نہیں کیا، حالانکہ ہم کہہ سکتے تھے کہ ہمارا مینڈیٹ واپس کریں، یا آپ کی حکومت جعلی ہے، اس لئے آپ سے بات نہیں کر سکتے۔
اسد قیصر نے کہا کہ ایسا بالکل بھی ہم نے نہیں کیا، ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، 26 نومبر کو آپ کہتے ہیں ہم نے گولی نہیں چلائی، ہم کہتے ہیں چلائی ہیں، اس کا فیصلہ ہو جانا چاہیے، ہم کہتے ہیں کہ جوڈیشل فائنڈنگ ہو، جو دونوں فریقین کو قبول ہو، پھر جو ان واقعات کا ذمہ دار نکلا، قانون کے مطابق اسے سزا دی جائے۔
اسد قیصر کا کہنا تھا کہ ابھی پتہ چلا ہے کہ نواز شریف اور ان کے قریبی ساتھی مذاکرات کو ناکام بنانا چاہتے ہیں، ہم سنجیدگی سے مذاکرات کو پاکستان کے مفاد میں آگے بڑھانا چاہتے ہیں، لیکن اگر خواجہ آصف اور مریم کے بیانات کے بعد کچھ ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری انہی پر ہوگی۔
