وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں ہونے والے سیکیورٹی کابینہ نے حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کی منظوری دینے کے باوجود اسرائیل کے حملے جاری ہونا معاہدے پر اسرائیل کو مجبور ہونے سے تعبیر ہوتا ہے کابینہ سے بھی منظوری مل گئی ہے جس کے بعدآج اتوار کے روز پہلا اسرائیلی یرغمالی حماس کی قید سے رہا ہونا ہے ۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ پہلا رہا ہونے والا اسرائیلی یرغمالی امریکی نژاد شہری ہوگا۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں کیا گیا کہ وہ پہلا یرغمالی ہوگا۔ قبل ازیں اسرائیلی وزیراعظم اس معاہدے سے پیچھے ہٹتے ہوئے نظر آئے تھے جب انہوں نے حماس پر معاہدے کی خلاف ورزی کا بے بنیاد الزام لگایا تھا۔بالآخر15ماہ بعد غزہ میں جاری نسل کشی کو روک تودیا گیا ہے لیکن اسرائیلی بمباری سے یہ خدشات ہیں کہ اب یہ معاہدہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں مستقل جنگ بندی کا باعث بنتا ہے یا نہیں، اس حوالے سے یقین سے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔فی الحال فلسطینیوں کو اتنا وقفہ ملا ہے کہ وہ اپنے شہدا کا غم منا سکیں جن کی تعداد46ہزار سے بھی زائد ہے حماس اور اسرائیل کے درمیان یرغمالیوں کے تبادلے کی شرط شامل ہے، غزہ کے عوام کو امداد کی فراہمی بحال جبکہ غزہ کی پٹی سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا بھی معاہدے کا حصہ ہے۔اب یہ تل ابیب کی سنجیدگی پر منحصر ہے کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کی پاس داری کیسے کرتے ہیں۔ البتہ جنگ بندی کا اعلان ہونے کے باوجود (جس کا اطلاق آج سے ہوگااسرائیل کی جانب سے غزہ میں قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ حماس کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔ تاہم ایسا نہیں ہوا اور تل ابیب نے فلسطینی مسلح گروہ سے معاہدہ کرلیا۔ اس نے ظاہر کیا کہ جدید امریکی ہتھیاروں سے لیس دنیا کی سب سے مسلح افواج بھی قابض لوگوں کے جذبے کو توڑ نہیں پائیں جنہوں نے ہزاروں جانیں قربان کردیں لیکن اپنی زمین سے دستبردار ہونے سے انکار کردیا۔جہاں یہ امید کی جارہی ہے کہ یہ امن معاہدہ مستقل جنگ بندی میں تبدیل ہوگا اور غزہ کے عوام کو جلد از جلد امداد کی فراہمی ہوگی وہیں دنیا کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسرائیل نے اس چھوٹی سی ساحلی پٹی میں ان 15ماہ میں کیا مظالم ڈھائے ہیںجنگ کے بعد کیا ہوگا، اس حوالے سے بہت سی تجاویز دی جاتی ہیں لیکن قضیہ فلسطین کا پائیدار حل آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔ ایسا کرنے کے لیے سب سے پہلے اسرائیل کو تمام مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے قبضہ ختم کرنا ہوگا جبکہ ایک خود مختار عرب ریاست کے قیام کے لیے اتفاق کرنا ہوگا۔ٹکڑوں میں تقسیم فلسطینی آبادی جنہیں اسرائیل باآسانی اپنی جارحانہ کارروائیوں کا نشانہ بنا سکتا ہے، مسئلے کا حل نہیں ہے۔ غزہ کی نسل کشی نے فلسطینی اتھارٹی کی مکمل بے بسی کو بھی آشکار کیا کہ کس طرح وہ عالمی سطح پر فلسطین کا مقدمہ لڑنے میں ناکام رہی۔ تمام فلسطینی تنظیمیں بالخصوص حماس اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو متحد ہوکر قابض قوت کا یکجہتی سے مقابلہ کرنا ہوگا۔اگر اسرائیل ایک بار پھر اپنے قریبی ساتھی واشنگٹن کا سہارا لے کر اپنی جارحانہ روش پر واپس آتا ہے تو فلسطینیوں کے پاس مزاحمت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
