پشتو زبان میں ایک ضرب المثل ہے کہ ”زہ مڑ شومہ ستا دہ پارہ ، تہ مڑ شوے دہ چا دپارہ” یہ کہاوت ایک امریکی مشیر جان کربی کے ایک حالیہ بیان پر جو انہوں نے پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے دیا ہے یاد آگئی ہے امریکی سلامتی کونسل کے مشیر جان کربی نے معمول کی ایک پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ پاکستان کبھی بھی امریکہ کا کسی معاہدے کا پابند رسمی اتحادی نہیں رہا ہے جان کربی نے مزید کہا کہ پاکستان نے گزشتہ برسوں کے دوران امریکی انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے ، کسی بھی قسم کے باضابطہ دفاعی معاہدہ نہ ہونے کے باوجود انسداد دہشت گردی میں کردار سے پاک امریکہ تعلقات میں سیکورٹی خدشات سے متعلق ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے ۔ جان کربی کے اس بیان پر مرزا غالب کا مشہور زمانہ شعر تو یاد ضرور آیا ہے یعنی
کعبے کس منہ سے جائو گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
وزیر دفاع خواجہ آصف کا مشہور جملہ بھی یاد آنا ضروری ہے کہ ”کچھ شرم ہوتی ہے ، کچھ حیاء ہوتی ہے ، مگر ایک تو مسئلہ یہ ہے کہ شرم و حیاء ہمارے ہاں اہمیت ضرور رکھتی ہے جبکہ اہل مغرب اور خاص طور پر امریکیوں کو اس سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے اور وہ دوسروں کو ”مینوں نوٹ وخا ، میرا موڈ بنڑے” کی صورتحال سے دو چار کرنے کا ہنر جانتے ہیں ، اس حوالے سے ایک اور امریکی کا وہ قول تو آپ کو یقینا یاد ہوگا کہ”یہ لوگ ڈالروں کے لئے اپنی ”قیمتی متاع” بھی بیچ دیتے ہیں ، اس طرح جب پاکستان اور امریکہ کے گزشتہ تقریباً75سالہ تعلقات پر ہم نظر ڈالں تو دونوں ملکوں کے تعلقات خاصے ”بازاری اور تاجرانہ” نوعیت کے رہے ہیں اور امریکی اگر ہمیں ”جنس فروختنی” سمجھتے ہیں تو باہمی تعلقات کے اس پون صدی کے عرصے میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے ہنگام پی ایل 480 کے تحت امریکی گندم کی ترسیل ، خشک دودھ ، بٹر آئل اور دیگر مراعات کے عوض ہم نے ہر وہ کام نکلواتے رہے ہیں جوحمیت کی نیلامی پر منتج ہوتے تھے ، یعنی بقول علامہ اقبال ہماری حیثیت کچھ یوں رہی ہے کہ
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
امریکیوں نے ہمیں سینٹو کے معاہدوں میں جکڑ کر ہم سے جو کام کروائے اس کا پہلا منصوبہ پشاور کے مضافات میں ایک گائوڈ بڈھ بیر (جواب میٹروپولیٹن سٹی کا حصہ بن کر شہر کی حدود میں شامل ہوچکا ہے ) کے مقام پر ایک امریکی اڈے کا قیام تھا جہاں سے سوویت یونین(روس) کے خلاف جاسوسی کی غرض سے اڑنے والے طیارے”یوٹو” کو سوویت یونین نے گرا کر اور اس کے پائلٹ کو زندہ گرفتار کرکے مقدمہ چلایا جبکہ ”سزا” کے طور پر روس نے نقشے پرپشاور کے گرد سرخ دائرہ لگا کر دھمکی دی کہ اگر آئندہ اس اڈے سے کوئی اور طیارہ جاسوسی کی غرض سے اڑا تو پشار کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا مگر پاکستان کے اس دور کے حکمرانوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا ، اور امریکی پروگرام جاری و ساری رہا ظاہر ہے حمیت تیمور کے گھر سے کب کی رخصت ہوچکی تھی یہاں تک کہ جب ستمبر 65 میں پاک بھارت جنگ چھڑ گئی تو پاک امریکہ معاہدے کے تحت پاکستانیوں کو دفاع میں تعاون کی یقین دہانیاں بھی ”تکنیکی” بنیادوں پر ”خواب و خیال” بن کر رہ گئی تھیں اور یہ کہہ کر کہ پاکستان کی دفاعی حفاظت کی شق کا تعلق صرف اور صرف ”کمیونزم” سے دفاع سے تھا اور اس ”مشروط” دفاعی حفاظت کا تعلق دوسرے ممالک سے جنگ کے ساتھ نہیں تھا ، گویا دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ تھا تو ضرور مگر یہ ”پابند رسمی معاہدہ” نہیں تھا اور اگر کچھ تھا تو امریکی امداد کے ”معاوضے”کے طور پرایک ”کرائے کے سپاہی” کا کردار ادا کرنے کا تھا جبکہ جنگ ستمبر 65 کے دوران تو امریکہ نے ان ٹینکوں اور طیاروں کے فالتو پرزوں کی فراہمی پر بھی پابندی لگا دی تھی جو ہم نے امریکہ ہی سے خریدے تھے یہ ٹینک اور طیارے دوسری جنگ عظیم میں امریکہ اور اتحادی فوجیوں نے جرمنی کے خلاف استعمال کئے تھے اور پھر زیادہ ایڈوانس اور جدید اسلحہ بنا کر یہ ناکارہ اشیاء پاکستان پر فروخت کر دی تھیں ۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان بقول جان کربی”کسی معاہدے کا پابند رسمی اتحادی” کی حیثیت سے 1970 میں بھارتی جارحیت کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے قیام میں پاکستان کی حفاظت کے حوالے سے ساتواں بحری بیڑہ آنے کی خبریں بھی بہت وائرل ہوئی تھیں اور پاکستانی اس بحری بیڑے کے انتظار میں رہے مگر چونکہ امریکہ کسی رسمی معاہدے کا پابند نہیں تھا اس لئے خبریں تو آتی رہیں لیکن بحری بیڑے نے پانی میں ڈالے ہوئے اینکر کو لپیٹنے اور ملبے تک کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ یوں پاکستان دولخت ہو گیا ۔ بقول مومن خان مومن
ا س نقش پاکے سجدے نے کیا کیا، کیا ذلیل
میں کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
افغانستان کی سرزمین پر سوویت یونین کے خلاف”جہاد” کے حوالے سے پاکستان کو دیئے گئے”کردار” پر کیا بات کی جائے اسی جنگ کے دوران امریکی مفادات کے لئے اپنی سرزمین کو ”قربان گاہ” بناتے ہوئے جس طرح ہم نے اہم کردار ادا کیا ، اسی کے دوران ایک موقع پرپاکستانیوں کو چند ڈالروں کے عوض”متاع عزیز”تک فروخت کرنے کے طعنے سے لگا ہوا زخم آج تک مندمل نہیں ہو سکا کیونکہ امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو میں نے دل تجھ کو دیا کا بیانیہ اپنا رکھا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری آنکھیں ڈالروں کی چکا چوند سے خیرہ ہوتی رہی ہیں یعنی ابتداء ہی سے امریکہ ڈالروں کی بارش سے اپنے مقاصد حاصل کرتارہا ہے اور یہ جو ہم سمجھتے رہے ہیں کہ امریکہ ہمارادوست اور اتحادی ہے تو یہ سوچ صرف یکطریہ تھی اور بالآخر امریکی سلامتی کونسل کے مشیر جان کربی نے اس خوابناک ماحول سے ہمیں باہر نکال ہی دیا ہے کہ امریکہ صرف اور صرف اپنے مفادات کا اسیر ہے خواہ اس کے مفادات وقتی طور پر کسی کے ساتھ بھی وابستہ ہوں چونکہ اس وقت جنوبی ایشیاء میں امریکی مفادات کے تقاضے تبدیل ہو چکے ہیں اور اب وہ دور نہیں رہا جب سوویت یونین کے خلاف اسے پاکستان کی ضرورت تھی اس لئے وہ پاکستان کے صدقے واری جاتا تھا ، وقت بدل چکا ہے سوویت یونین ایک بار پھرٹکڑے ٹکڑے ہو کر پرانی وسط ایشیائی ریاستوں میں منقسم ہو چکا ہے اور اب امریکہ کو اس سے کوئی سٹرٹیجک خطرہ نہیں رہا بلکہ اب چین جس طرح اقتصادی عفریت بن کر امریکی مفادات کے لئے چیلنج بنتا جارہا ہے اس لئے اب امریکہ اور مغربی ممالک کے ہر قسم کے مفادات بھارت کے ساتھ وابستہ ہوچکے ہیں جسے علاقے کا تھانیدار بنا کر ایک جانب وہ چین کی پیش رفت کو روکنا چاہتا ہے تودوسری جانب پاکستان کا جوہری پروگرام اہل مغرب ، اسرائیل اور بھارت سب کے لئے باعث تشویش بن چکا ہے اس لئے پاکستان کے خلاف جس طرح ”گھیرا” تنگ کیا جارہا ہے اس ضمن میں پاکستان کو چاروں جانب سے سازشوں کے چنگل میں گھیرتے اس کی قربانیوں کو رائیگاں قرار دیتے ہوئے ”پارٹنر شپ” سے بھی نکال دیاگیا ہے کہ بقول نصیر ترابی
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھائوں کا عالم رہا ، جدائی نہ تھی
