ایک اور نقل مکانی

ضلع کرم کی کشیدہ صورتحال میں کسی بہتری کے امکانات روشن نہ ہونے اور شر پسندوں کی جانب سے مورچے خالی نہ کرنے جبکہ امدادی اشیاء علاقے میں پہنچانے میں رخنہ اندازی سے عوامی زندگی کیلئے مشکلات میں اضافے کی وجہ سے انتظامیہ کی جانب سے آپریشن کے اعلان کے بعد متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی شروع ہو گئی ہے، ایک نجی ٹی وی کے مطابق آپریشن کرم کے چار علاقوں خارکلی، میروکس،صدہ اور گرد ونواح میں کیا جائیگا ،جہاں شرف پسند بدستور مورچے بنا کر بیٹھے ہیں اور شاہراہ پر آمد و رفت کو نشانہ بنا رہے ہیں، یاد رہے کہ ایک طویل کشیدگی اور لا تعداد افراد کے ان جھڑپوں کے دوران ہلاک اور زخمی ہونے کے بعد جرگہ کی کوششوں کے بعد بالآخر مذاکرات کی کامیابی کا اعلان نہ صرف متاثرہ علاقوں بلکہ پورے ملک کے امن پسند حلقوں کیلئے باعث اطمینان قرار پایا اور باقاعدہ ضمانت ملنے کے بعد جب اشیاء ضروریہ کی پہلی کھیپ پہنچانے کیلئے ڈپٹی کمشنر کرم کی سرکردگی میں پہلا قافلہ روانہ ہوا تو امن اور سلامتی کی ضمانت مہیا کرنے کے باوجود شر پسندوں نے اس پر حملہ کر دیا، جس میں کرم کے ڈپٹی کمشنر اور دیگر کئی افراد کے زخمی ہونے کی خبریں آئیں، اس کے بعد حالات ایک بار پھر کشیدہ ہو گئے اور متاثرہ علاقوں میں انسانی المیہ جنم لینے کی تشویشناک خبریں سامنے آتی رہیں ،اس دوران میں اگرچہ کسی نہ کسی طور پر کچھ ضروری اشیاء پہنچانے میں جزوی کامیابی ضرور ملی کیونکہ طویل کشیدگی کے دوران علاقے میں قحط کی سی صورتحال سے ضرورت سے کہیں کم سامان سے ضرورت مندوں کی دادرسی مکمل طور پر نہ ہو سکتی تھی اور ابھی مزید اشیاء جن میں ضروری ادویات ،سامان خورد و نوش وغیرہ پہنچانا ازحدضروری تھا اور اب بھی ہے، مگر ضد پر اڑے ہوئے شرپسندوں کی ہٹ دھرمی ہر ،ہرقدم پر آڑے آرہی ہے، اس گھمبیر ہوتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر انتظامیہ کی جانب سے آپریشن لانچ کرنے سے متاثرین کے حلقوں میں ایک بار پھر تشویش کی لہر دوڑنا فطری امر ہے، اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق متاثرہ علاقوں میں جہاں شر پسند اب بھی مورچے سنبھالے ہوئے ہیں آپریشن کے آغاز سے پہلے ہی مندوری، چھپڑی اور اوچت سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے، جبکہ دھرنا بھی جاری ہے، ادھر بگن حملے میں جاںبحق ہونیوالوں کی تعداد اب تک 10 ہو چکی ہے ،حکومت نے 17 ہزار سے زائد افراد کیلئے کیمپس قائم کر دئیے ہیں ،اطلاعات کے مطابق ٹل اور ہنگو میں ٹی ڈی پیز کیلئے کیمپوں کے قیام کی غرض سے ڈگری کالج ،ٹیکنیکل کالج ،ریسکیو 11 22 اور عدالت کی عمارتوں میں کیمپس قائم کرنے کیلئے محکمہ ریلیف کو خط لکھ دیا گیاہے جس کے بعد ٹی ڈی پیز کے قیام ،حفاظت اور خوراک کیلئے انتظامات مکمل کئے جا رہے ہیں، ادھر مندوری میں متاثرین کا دھرنا بھی بدستور جاری ہے جس کے باعث شاہراہ کرم بند ہے ،علاقے میں کھانے پینے سمیت اشیاء ضروریہ اور ادویات کا بحران پیدا ہو گیا ہے، اس صورتحال کے پیش نظر اب انتظامیہ نے راستے کھلوانے اورشاہرہ کرم کی سکیورٹی کیلئے آپریشن کا فیصلہ کیا ہے،درایں اثناء ضلعی انتظامیہ ،پولیس، ایف سی اور عمائدین علاقہ کے مابین مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی نگرانی میں ایک کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے، کرم عمائدین سے مذاکرات صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے کئے جا رہے ہیں تاہم صورتحال بہتر نہ ہوئی تو آپریشن ناگزیر ہوگا ،دوران آپریشن آبادی کے تحفظ کیلئے کیمپس کی تیاری کا عمل شروع کر دیا گیا ہے جس کیلئے سہولیات فراہم کی جائیں گی، اس سے پہلے اگرچہ فریقین کے تعاون سے علاقے میں بنکرز کی مسماری اور امدادی سامان کی ترسیل پر سمجھوتہ بھی سامنے آیا تھا لیکن بعض سرپسندوں کی وجہ سے گزشتہ تین روز سے یہ کام معطل ہو چکا ،ہے اب آخری حربہ کے طور پر بہ امر مجبوری آپریشن لانچ کرنا ضروری ہو چکا ہے، اگرچہ جاری مذاکرات سے امیدیںبندھ چکی ہیں کہ ممکن ہے کسی سمجھوتے پر پہنچنے کی راہ ہموار ہو جائے اور شورش زدہ علاقوں سے نقل مکانی رک جائے کیونکہ اس سے پہلے صوبے کے مختلف علاقوں سے جن بھی وجوہات کی بناء پر آبادی کے بعض حصوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا تھا، جن میں سوات ، بنوں سے ملحقہ قبائلی علاقوں اور دیگر مقامات کے ٹی ڈی پیز کو شدید مشکلات کا سامنا رہا، اگرچہ سوات کے ٹی ڈی پیز کیلئے مردان اور دیگر ملحقہ علاقوں کے عوام نے نہ صرف اپنے گھروں ،حجروں وغیرہ کے دروازے کھول کر اسلامی بھائی چارے کی اعلیٰ مثال قائم کی تھی ،جبکہ بنوں میں پناہ لینے والوں کو شدید مصائب سے دوچار ہونا پڑا تھا اور ان کی مکمل واپسی کا عمل اب بھی پوری طرح تکمیل پذیر ہونے کے حوالے سے سوالات اٹھتے رہتے ہیں، اس لئے ایک تو کرم کے متعلقہ متاثرہ علاقوں کے عوام کی نقل مکانی میں حفاظتی اقدامات انتہائی ناگزیر ہیں تا کہ راستوں میں جہاں جہاں بھی مبینہ شر پسند مورچے سنبھالے بیٹھے ہیں وہ ان بے بس عوام کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچا سکیں جو پہلے ہی اپنے محفوظ گھروں کو بہ امر مجبوری چھوڑنے اور کسمپرسی کی حالت میں نقل مکانی کر کے ممکنہ نامسائد حالات سے دوچار ہونے پر آمادہ کئے جا رہے ہیں، ان کی عارضی رہائش کیلئے مختلف تعلیمی اداروں میں جس طرح بندوبست کیا جا رہا ہے ان تعلیمی اداروں میں تعلیم جاری رکھنے کی کیا صورت ہوگی اگر یہ سلسلہ تول پکڑ گیا تو کیا تعلیمی اداروں کی بندش اور انہیں ٹی ڈی بیز کیلئے مختص کرنے کی وجہ سے سینکڑوں طلبہ کی تعلیم کا حرج نہیں ہوگا اس پر بھی ضرور سوچنا چاہیے۔

مزید پڑھیں:  ترا نام لکھنا کتاب پر ٍ ترا نام پڑھنا کتاب میں