وہ جو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں ،سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو؟ مگر بہ امر مجبوری ہی سہی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہماری فریاد یعنی عوام نقطہ نظر کے عین مطابق مشکلات و مصائب کی نشاندہی ہمارا وتیرہ ہی رہتا ہے اور ہم ( یعنی عوام) اپنے مسائل کی نشاندہی لازمی سمجھتے ہوئے اس جانب حکمرانوں کو متوجہ کرنا جاری رکھتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہماری فریاد صدا بہ صحرا ہی ثابت ہوگی، اس ضمن میں تازہ ترین مسئلہ یہ سامنے آیا ہے کہ صوبے کے دیگر اور” ناقابل توجہ” علاقوں کے برعکس صوبائی دارالحکومت جیسے شہر حکمراناں پشاور میں گزشتہ چار سال سے سوئی گیس کی جو صورتحال عوام کیلئے ایک عذاب سے کم نہیں رہی ،یعنی گیس ناپید ہونے کی کیفیت سے دوچار ہے ،عوام کو حکومت کے اپنے اعلانیہ کے مطابق 24 گھنٹوں میں صرف تین بار( صبح ناشتے، دوپہر کھانے اور رات کے کھانے کے اوقات میں ) سپلائی کئے جانے کے اعلانات کے مطابق بھی گیس کی فراہمی مسلسل سوالیہ نشانات کی زد میں ہے، یہاں تک کہ سی این جی سٹیشنوں پر بھی پابندی لگائی جا چکی ہے تاکہ عوام کو سہولت کیساتھ گیس ملتی رہے، مگر اے بسا آرزو کے خاک شدہ، یعنی وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے، اس لئے گیس کی فراہمی آج بھی مشکلات کا شکار ہے، مگر جو بل عوام کو بھیجے گئے ہیں ان کو دیکھ کر تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کو وافر مقدار میں گیس کی فراہمی میں سہولیات ہی سہولیات دی جا رہی ہیں حالانکہ گیس کی قیمت میں حسب سابق سردیوں میں اضافے کا شیڈول بھی سامنے نہیں آیا جس سے عوام یہ سمجھیں کہ گیس کے اخراجات میں اضافہ ناگزیر ہونے کی وجہ سے بلوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے، عوامی حلقوں نے اس صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اضافی بلوں کو ناقابل برداشت قرار دیا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب گھریلو صارفین کو گیس مہیا ہی نہیں کی جا رہی اور لوگ روزمرہ کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے یا تو ایل پی جی سلنڈرز میں گیس بھروانے پر مجبور ہیں یا پھر دیگر ذرائع یعنی لکڑی، کوئلہ، مٹی کا تیل ،وغیرہ وغیرہ سے حرارت حاصل کرتے ہیں جس کے اخراجات سوئی گیس کے علاوہ ہیں تو پھر زیادہ بل بھیج کر عوام کو تشویش میں کیوں مبتلا کیا جا رہا ہے؟۔
