فرق صاف ظاہر ہے

سرکاری ملازمین اور سرکاری ” حکمرانوں” کی تنخواہ، مراعات، پنشن اور دیگر معاملات میں جو (تغاوت) دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، اس سے حکومتی پالیسیوں کے اندر کی صورتحال کے دوغلے پن کا بخوبی احساس ہو تا ہے، ایک طرف یہ سرکاری حکمران یعنی ارکان پارلیمنٹ جب چاہتے ہیں اپنے مشاہروں اور دیگر مراعات میں بے پناہ اضافہ کر کے ایک غریب ملک کے خزانے پر بوجھ ڈالتے ہوئے کسی فکر کا شکار نہیں ہوتے، تاہم جب ایوان ہائے قانون سازی میں ان کے سامنے مہنگائی سے شدید طور پر متاثر ہونیوالے سرکاری ملازمین اور خاص طور پر پنشنرز کو سالانہ بنیاد پر تنخواہوں اور پنشن میں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر اضافہ کرنا پڑے تو ایک جانب ملکی خزانے پر دباؤ کا بہانہ اور دوسری جانب آئی ایم ایف کے ظالمانہ احکامات کا بیانیہ اپناتے ہوئے معمولی اضافہ بھی قابل برداشت نہ ہونے کی بناء پر رد کیا جاتا ہے، ابھی حال ہی میں ایک جانب اسمبلیوں کے اراکین نے حسب سابق و حسب معمول اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کیلئے تمام تر اختلافات ایک طرف رکھتے ہوئے ایک ہی ”پیج” پر ہونے کے تاثر کو روشن کیا تو دوسری جانب سرکاری ملازمین اور خاص طور پر پنشنرز کی ” مراعات”( اگر انہیں مراعات تسلیم کیا جائے تو)پر پابندی لگاتے ہوئے ایک نیا کلیہ ایجاد کیا گیا جس کے تحت پنشن میں سالانہ اضافے کو تین سال کی مدت کیلئے سیل اور پنشن کو ان کی ابتدائی تنخواہ کیساتھ نتھی کر کے ایک ایسی صورتحال سے دوچار کیا گیا جہاں پنشنرز کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کرنے کی کیفیت پیدا ہوگی، سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اگر پنشنرز کی آمدن کو تین سال تک جام کرنے کے بعد کیا اس بات کی ضمانت دینے کو تیار ہوگی کہ ان کی پنشن کو تین سال تک ساقط رکھنے کے بعد ملک میں مہنگائی کی شرع کو بھی تین سال تک اسی کیفیت میں رکھنے کی حکمت عملی اختیار کر کے پنشنرز کو بھڑتی مہنگائی سے نمٹنے میں مدد دے گی؟، مہنگائی میں مسلسل اضافے اور پنشن میں تین سال تک ایک پیسے کا اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے پنشنرز کی آمدنی مسلسل کمی کا شکار ہونے کے خدشات اور امکانات کو کیسے رد کیا جا سکتا ہے؟، اور ان کو مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی سے محفوظ کرنے کیلئے کیا اقدام تجویز کئے جا سکتے ہیں، اس صورتحال میں پنشنرز ملک گیر احتجاج پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں، حیرت اس بات پر بھی ہے کہ جو آئی ایم ایف صرف سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی تنخواہوں اور پنشن میں معمولی اضافے پر معترض اور حکومت کو اس سے باز رکھنے کیلئے دباؤ بڑھاتا رہتا ہے وہ اراکین پارلیمنٹ کے پرتعیش مالی معاملات کے اضافوں کا نوٹس کیوں نہیں لیتا؟۔

مزید پڑھیں:  ''کچھ اور سبق ہم نے کتابوں میں پڑھے تھے''