۔۔۔” آپ کی باتیں”۔۔۔

مجھے بہت سے لوگوں کی یہ بات سن کر حیرت ہوتی ہے جب وہ کسی ڈاکٹر ، انجینئر اور سائنسی علوم سے وابستہ فرد کو ادب ِ لطیف میں دلچسپی لینے اور نظم و نثر لکھنے پر طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ آپ کا شاعری اور افسانے سے کیا واسطہ ہے۔ حالانکہ شاعری تو انسانی روح کی دائمی صفت ہونیکی وجہ سے ہر فرد میں ، ہر کارنامے میں اور ہماری زندگی کے ہر عمل میں دریافت کی جا سکتی ہے۔ یہ وجدان اور اظہار سے عبارت ہے ، زندگی سے پیدا ہونیوالے خیالات ، عوامل اور جذبات جب شاعری کا مواد بنتے ہیں تو وہ صرف نیکی بدی اور خوشی و غم نہیں رہ جاتے بلکہ یہ سب کچھ احساسات کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور یہی شاعری کا جادو ہے ، جو کسی ایک کے بس میں نہیں۔ یہ ابتدائی جملے اس لئے لکھے کہ میرے ہاتھ میں انجینئرنگ یونیورسٹی پشاور کے پروفیسر انجینئرڈاکٹر افضل خان کی پشتو شاعری کا مجموعہ” ستہ خبرے” ( آپ کی باتیں ) ہے۔ اگر کوئی شخص پہلی بار ڈاکٹر افضل سے مل رہا ہے تو ملاقات کے دوران ہی اسے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ ایک روشن فکر اور انسان دوست سامنے بیٹھا ہے۔ اْنہوں نے اپنے شعری نمو پاروں کو” آپ کی باتیں” کا نام دیا ہے ، جو اپنے اساسی پیکر میں فکر پر ہی بنیاد کرتی ہیں اور ایسی فکر جس کا غلبہ ظاہر پر نہیں بلکہ باطن پر ہے۔ یہ سرسری گزرنے والی شاعری نہیں ، اس میں انسانی رشتوں کی پہچان ، خودداری ، دوسروں کے کام آنے اور گھر کو آباد کرنے کی باتیں ہیں۔ انسان دوستی ہی ان کی شاعری کا اہم موضوع ہے۔ وہ ہم عصر زندگی کے حقائق سے بخوبی آگاہ ہونے کیساتھ ان کے محرکات سے بھی با خبر ہیں۔ آج کے انسان کو جو دکھ ہے اور جن مصائب و آلام میں مبتلا ہے ، وہ ان کا اداراک بھی رکھتے ہیں اور احساس کرب بھی۔ ڈاکٹر افضل انسانی معاشرے کو در پیش خطرات و مسائل کا علم بھی ان کے پس منظر اور پیش منظر کیساتھ رکھتے ہیں ، اسی باعث اْن کی فکر وقت کیساتھ وسیع تر ہوتی گئی ہے۔ سوات سے تعلق کی بناء پر اْنہیں ہر موسم کے رنگوں سے آشنائی ہے ، جہاں اْنہوں نے حسن و جمال کو بڑی پاکیزگی سے بیان کیا ہے وہاں دہشتگردی کیخلاف معاشرہ میں راستی، تعلیم اور امن کے پیغام کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ یہ افسوس بھی برملا کر رہے ہیں کہ میرے پشتون بھائی نے کتاب کی بجائے بندوق کو اپنا سرہانہ بنا لیا ہے اور اپنے معاملات بندوق کے سپرد کر دئیے۔ اْنہوں نے اپنی ایک نظم ” نئے دور” میں اپنے معاشرے کو محبت سے خالی ظاہر کیا ہے کہ پیار ، سچائی اور انسانی ربط میں کمی آ چکی ہے۔ عشق میں بھی ملاوٹ ہے کہ اب مجنوں نے لیلیٰ کا خیال چھوڑ دیا اور اسی طرح فرہاد کے ہاں اب سچ کا پہلے والا جنون نہیں رہا۔ ان کی تمام نظموں کی دْنیا اکیسویں صدی کی دْنیا ہے جس کے عشرے صدیوں پر بھاری ہیں ، قاری کو اس کی تفہیم میں سوچ کے نئے زاویوں سے واسطہ پڑتا ہے اور کہیں کہیں نارسائی کے صدمے سے بھی دوچار ہوتا ہے۔ ان نظموں میں ابھرنے والا منظر نامہ ادب کے افق پر نئے چاند ، سورج اور ستاروں کی جلوہ گری کا سامان بھی بہم کرتا ہے۔ نظم و غزل ، ہر دو اصناف سخن میں ان کے فکر و شعور کی بلند پروازیاں دکھائی دیتی ہیں اور کلاسیکی روایات سے بھی منحرف نہیں رہتے۔ اس میں کلام نہیں کہ لوگ فن کی تفہیم اور معیار کا مقام اپنے ذوق کے مطابق کرتے ہیں لیکن یہ بات حتمی ہے کہ تخلیقی عمل میں شعور حسن نا گزیر عنصر ہے۔” آپ کی باتیں” یقیناً سنجیدہ اور گہرے مطالعے کی متقاضی ہیں۔ ادب انسانی محسوسات و تجربات کا ایک ایسا ماخذ ہے جس کی مثال کسی دوسرے صنف میں نہیں مل سکتی۔ ادب ہی ہمیں سکھاتا ہے کہ کیا پڑھا جائے اور کیا نہ پڑھا جائے۔ فکر و تخیل کی اہمیت تک پہنچنے کیلئے ادب کا مطالعہ نا گزیر ہے۔ آئن سٹائن کا کہنا ہے کہ اپنے انتہائی بلند واعلیٰ مدارج پر پہنچ کر شاعری اور سائنس ایک ہو جاتے ہیں کیونکہ دونوں کا تعلق تخیل اور وجدان سے ہو جاتا ہے۔ یہی رشتہ ہم ڈاکٹر افضل کے پیشہ اور اس کی تخلیقی عرق ریزی میں دیکھتے ہیں۔ مجھے خوشی یہ ہے کہ اْنہوں نے اپنی شاعری کو غیر ادبی تصورات سے آلودہ نہیں کیا۔ ورنہ آج کل ادب کو بڑا خطرہ ان سیاسی و مذہبی گروہوں سے ہے جو ادب کا لباس پہن کر سامنے آتے ہیں جسے یہ اپنے طور پر غیر ادبی مقاصد کی ترجمانی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ادب کا مقصد نظریات کی تلقین نہیں بلکہ اس کا مقصد قاری کے ذہن میں وہ لطیف تغیرات پیدا کرنا ہے جو آزادانہ غور و فکر کا باعث بن سکیں تا کہ وہ زندگی کے مفہوم پر غور کر سکے۔ ادب اور معاشرے کا تعلق ہر دور میں اہم رہا ہے ، یہ ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ اس لئے شعر و ادب میں کسی احتجاجی ، مزاحمتی ، یا انقلابی روئیے کو سمجھنا ، محسوس کرنا اور اس کی داد دینا روح ِ عصر اور شعورِ حاضر کے عین مطابق ہے۔ کسی کا قول ہے کہ انسان کا مستقبل انسان ہی ہے۔ ادب میں انسانیت کو ایک اعلیٰ قدر کے طور پہ تسلیم کیا گیا ہے ، اگر ہمیں فکر کا ایک با معنی زاویہ اختیار کرنا ہے تو لا محالہ ہمیں انسان دوستی کے تصور کا سہارا لینا ہو گا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم نے اپنا سفر کہاں سے شروع کیا تھا اور ہم کہاں پہنچنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  بدعنوانی کے ناسور کا ہر قیمت پر خاتمہ ہوناچاہئے