بعداز خرابی بسیار لوئر کرم میں شرپسندوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیاگیا ہے۔لوئر کرم کے علاقے بگن پر علیزئی ایف سی قلعے سے توپوں سے شیلنگ کی گئی ہے جبکہ ساتھ ہی سیکورٹی فورسز نے بگن کے علاقے میں داخل ہوکر سرچ آپریشن شروع کردیا ہے ۔ بگن میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ فورسز نے پہاڑوں پر دہشت گردوں کے مورچوں کا کنٹرول بھی سنبھال لیاہے، دیگرعلاقوں میں بھی سرچ آپریشن متوقع ہے ذرائع کے مطابق لوئر کرم کے چار ویلج کونسلز میں آپریشن کیا جائے گاذرائع کے مطابق لوئرکرم کے مکین آپریشن کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، مظاہرین کا کہنا ہے کہ یکطرفہ فوجی آپریشن ہرگز قبول نہیں۔ دوسری جانب فریقین کے درمیان معاہدے میں کردار ادا کرنے والے جرگہ کے اراکین نے امن معاہدے کی خلاف ورزی اور شرپسندوں کے حامیوں کے خلاف تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی)تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔جرگہ اراکین نے صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف، وزیرداخلہ اور خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ، گورنر کے نام خط میں کہا ہے کہ جرگے نے جو کہا تھا اس پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے عسکری قیادت نے یقین دہانی کرائی تھی روانہ ہونے والے قافلے کی حفاظت کے لئے پولیس، فوج اور ایف سی کے ساتھ ساتھ5ہیلی کاپٹروں کی فضائی مدد حاصل ہوگی لیکن اس کے بعد بگن میں قافلے پر حملہ ہوگیا جہاں ٹرکوں کو لوٹا گیا اور4ڈرائیوروں کو قتل کردیا گیا جبکہ کچھ لاپتا ہوگئے۔جرگہ کے اراکین نے خط میں دعوی کیا کہ سیکورٹی کے لیے تعینات اہلکاروں نے مزاحمت نہیں کی، ٹی وی پر5شرپسندوں کی ہلاکت کی خبر چلائی گئی جو غلط تھی، ریاستی ادارے ضلع میں امن برقرار رکھنے میں مکمل طور پر ناکام ہوئے ہیں۔حکومتی اقدمات اور جرگہ کے اراکین کے تحفظات کے اظہار کے بعد علاقے میں عدم اعتماد کی فضا میں کارروائی کے موثر ہونے پر سوالیہ نشان نہ بھی بنے تو عدم اعتماد کی جو فضا پیدا ہوئی ہے اس میں اضافہ ضرور ہو گا البتہ بالاخر آپریشن کے فیصلے پرمجبور ہونا فطری امر اس لئے تھا کہ علاقے میں بار بارمعاہدوں کے باوجود افسوسناک واقعات کی روک تھام نہیں ہو پا رہی تھی اور علاقے میں پختونوں کی روایت کے مطابق ہونے والے جرگہ کی خلاف ورزی پرکوئی ایسا موثر فورم نہیں رہ گیاتھا کہ وہ خلاف ورزی کرنے والے افراد کوسزا دے سکتی علاقائی اکثریتی علاقے مخالفین کے لئے نوگو ایریاہی نہیں بن گئے تھے بلکہ مقتل بنا دیاگیا تھا اس طرح کے عناصر کو مقامی آبادی کی جزوی حمایت تو حاصل ہونا ممکن تھا البتہ پوری آبادی ان کی حامی ہر گز نہیںہو سکتی تھی مگر آپریشن کے نتیجے میں اب پوری آبادی کا مجبوراًانخلاء تکلیف دہ امر ہے جس سے احتراز کی بھی گنجائش نہ تھی۔ بہرحال ابتداء میں اگرچہ زمین اور پانی پر قبائلی تنازعات کے باعث کشیدگی کو اگر حکومت اور انتظامیہ بروقت حل کرنے میں کامیاب ہوتی اور مقامی جرگہ موثر ہوتا تو فرقہ وارانہ گروہوں اور دہشت گرد تنظیموں کو بھی اختلافات سے فائدہ ا ٹھانے کا موقع نہ ملتامشکل امر یہ ہے کہ حکومتی اداروں نے بھی درجہ حرارت انتہا پہنچنے راستے کی بندش اور اموات تک معاملہ پہنچنے سے قبل مذاکرات مذاکرات کھیلنے سے بڑھ کر کچھ نہ کیانومبر میں لوئر کرم میں ایک قافلے کو ہلاکت خیز نشانہ بنانے کے بعد حکومت نے پاراچنار کو ملک کے دیگر حصوں سے مہینوں تک بند رکھنے کی اجازت دے کر بڑی بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے نتیجے میں کرم کے مرکزی قصبے میں ایک سنگین انسانی بحران پیدا ہوا، خاص طور پر خوراک اور ادویات کی کمی کی وجہ سے بچے اور نوزائیدہ متاثر ہوئے۔لیکن ریاست نے قبائلی تنازعہ کو حل کرنے میں اپنا وقت لیا۔ یہاں تک کہ یکم جنوری کو ایک جرگے کے ذریعے طے پانے والا امن معاہدہ بھی تشدد کو روکنے میں ناکام رہا ہے، جیسا کہ حالیہ قافلے پر حملوں سے ظاہر ہوتا ہے، اور اب ایک تطہیری آپریشن کو آخری حربے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اگر دہشت گردوں اور فرقہ وارانہ گروہوں کوان کے اعترافی وابستگیوں سے قطع نظر پہلے ہی بے اثر کر دیا جاتا تو آج ہم اس موڑ پر نہ ہوتے۔مزید برآں، ریاست کو ایک دن کے لیے بھی کسی علاقے کی ناکہ بندی برداشت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ آنے والے دن بتائیں گے کہ کیا حکومت اس لاوارث علاقے میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوتی ہے اب جبکہ علاقے میں کارروائی جاری ہے تو کوشش ہونی چاہئے کہ اس کی مدت طویل نہ ہو اور نہ ہی مقامی آبادی کی واپسی کاعمل طویل المدت ہو علاقے سے ان عناصر کی جلد سے جلد تطہیر کے بعد مقامی افراد کی واپسی کا مرحلہ شروع کیا جانا چاہئے جب تک ایسا نہیں ہوتا حکومت ان کی ہر قسم کی سرپرستی کرے اور ان کو متاثر ہونے نہ دے۔
