اپنوں ہی کا اعتراض

طالبان کے ایک سینئر رہنماء نے عوامی سطح پر ایک خطاب میں اپنے سپریم لیڈر پر زور دیا ہے کہ وہ افغان خواتین اور لڑکیوں پر تعلیمی پابندی کو ختم کر دیں کیونکہ اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ وزارت خارجہ کے پولیٹیکل ڈپٹی شیر عباس ستانکزئی نے یہ بات جنوب مشرقی صوبہ خوست میں ایک تقریر میں کہی۔انہوں نے ایک مذہبی سکول کی تقریب میں حاضرین کو بتایا کہ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم سے انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، جیسا کہ ماضی میں اس کا کوئی جواز نہیں تھا اور ایسا بالکل اب بھی نہیں ہونا چاہئے ۔ واضح رہے کہ حکومت نے خواتین کو چھٹی جماعت کے بعد تعلیم سے روک دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم چار کروڑ کی آبادی میں سے دو کروڑ لوگوں کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں، یہ اسلامی قانون میں نہیں ہے بلکہ ہماری ذاتی پسند یا فطرت ہے۔ستانکزئی ایک زمانے میں ان مذاکرات میں طالبان ٹیم کے سربراہ تھے جس کی وجہ سے افغانستان سے غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا ہوا تھا۔یہ پہلی بار نہیں ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ خواتین اور لڑکیاں تعلیم کی مستحق ہیں۔ انہوں نے اسی طرح کے ریمارکس ستمبر2022میں بھی دئیے تھے۔طالبان کی عبوری حکومت میں صرف اس حوالے ہی سے متعدل رائے موجود نہیں بلکہ پاکستان سے تعلقات اور ٹی ٹی پی کی سرپرستی کی غلطی پر بھی ایک موثر گروپ مخالفانہ رائے رکھتا ہے لیکن سخت گیر گروپ بدستور ایسے فیصلے اور اقدامات میں مصروف ہے جس کے باعث مقامی آبادی مختلف قسم کی مشکلات اور ناآسودگی کا شکار ہے اور ان فیصلوں کی مخالفت ہو رہی ہے طالبان کی عبوری حکومت کے سخت گیر فیصلوں کے باعث دنیا بھر میں اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا تا ہے خلاف شرع اقدامات سے گریز احسن امر ہے لیکن شریعت میں خواتین کی تعلیم اور دیگر حوالوں سے ان کی آزادی کی جو حد مقرر ہے بدقسمتی سے اس معاملے میں افغان روایات کو مقدم گرداننے کے باعث خواتین نہ تو ملازمتوں پر جا سکتی ہیں اور نہ ہی ان کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہے اور آبادی کی ایک بڑی تعداد عضو معطل بنی ہوئی ہے جس کے آئندہ نسل پر اثرات اور خواتین پر موجودہ وقت میں منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں مگر طالبان قیادت انتہا پسندی پر نظر ثانی کے لئے آمادہ نہیں طالبان کو عبوری حکومت دنیا کی نہیں سنتی تو کم از کم اپنے ہی اندر کے معتدل خیالات کے سامنے آنے پر ہی غور کرے۔

مزید پڑھیں:  حیات شیرپاؤ،حیات وخدمات