دنیا میں آتش زدگی کے لاکھوں واقعات ہوئے ہیں اور ہوتے رہیں گے ۔ آگ نے مندر ، مسجد، گرجا، سینیگاک ، گوردوارا ،عیسائی ،مسلمان ، سکھ ، ہندو ، یہودی ، امیر ،غریب ، ایمان دار ، بے ایمان ، شریف یا بدمعاش کی کبھی تمیز نہیں کی ۔جب آگ لگتی ہے تو وہ بلاتمیز و تفریق سب عمارتوں افراد اور املاک کو جلا کر راکھ کردیتی ہے ۔ حالیہ دنوں میں اسی طرح کی ایک شدید آتش زدگی امریکہ کے ایک شہر لاس اینجلس جو امریکی ریاست کیلیفورنیا میں واقع ہے میں ہوئی ہے جس میں شہر کا ایک پورا حصہ جل کر خاکستر ہوگیا ہے ۔ امریکہ میں گھروں کی تعمیر میں لکڑی کا بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے بلکہ زیادہ تر گھر دیار کے لکڑی سے ہی بنائے جاتے ہیں اس لیے بھی وہاںآگ اتنی تیزی کے ساتھ پھیلی کہ امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک بھی اس آگ پر قابو نہ پاسکا۔ البتہ امریکہ کے بیدار نظام نے ان گھروں میں رہائش پذیر لوگوں کو فوری نکال لیا تھا جس کی وجہ سے زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا ۔ اس آگ میں ہزاروں گھر جل چکے ہیں عمارتیں راکھ کا ڈھیر بن گئی ہیں لیکن صرف چند افراد اس میں اب تک ہلاک ہوئے ہیں ۔ جبکہ اگر ایسی کوئی آگ پاکستان میں لگتی تو اس میں لاکھوں افراد مرجاتے اس لیے کہ ایک تو ہمارے لوگ تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے حکومت اور امدادی اداروں کے احکامات پر عمل درآمد نہیں کرتے اور پھر ہمارے پاس ایسا کوئی نظام ہی نہیں ہے کہ اتنی بڑی آبادی کو سہولت کے ساتھ پورے شہر سے نکالیں اور ان کے لیے فوری کہیں اور انتظام کردیں ۔ 17 صدی میں جاپان کے شہر ٹوکیو میں آگ لگی تھی جس میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے اور ٹوکیو شہر تقریباً خاکستر ہوگیا تھا ۔1922 سمرینہ کی آگ جس میں ایک لاکھ سے زیادہ یونانی اور آرمینین جل گئے تھے اور اس آگ سے پورا شہر جل گیا تھا ۔2009 میں اسٹریلوی ریاست ویکٹوریا میں لگی آگ سے بھی بہت بڑی تباہی ہوئی تھی ۔ امریکہ کے جنگلات میں کئی بار ایسی آگ لگی کہ جو ایک ریاست سے دوسری ریاست تک پھیل گئی تھی اور اس کی وجہ سے بہت زیادہ نقصانات ہوئے ہیں ۔ہندوستان میں ہر دیوالی کے موقع پر شہروں میں آگ لگتی ہے جس سے وہاں بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے ۔2020 میں مکہ شریف اور اطراف میں آگ لگی تھی ۔ آگ لگنے کے واقعات پوری دنیا میں تواتر کے ساتھ پیش آتے ہیں گزشتہ برس صرف پاکستان میں آگ لگنے کے دس ہزار سے زیادہ واقعات ہوئے ہیں ۔اس طرح ہر ملک میں یہ واقعات رونما ہوتے ہیں ۔ پاکستان کا شہر کراچی اکثر و بیشتر آگ لگنے کے واقعات کی لپیٹ میں آتا ہے ۔ آگ کسی بھی وجہ سے لگ سکتی ہے لیکن زیادہ تر آگ لگنے کے واقعات انسانی کوتاہی اور غفلت کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔ ہم پاکستانی اس غفلت کو مذہب سے جوڑ دیتے ہیں ۔ اس وقت ہمارا سوشل میڈیا اور ہر تیسرا پاکستانی اس بات پر خوشی منا رہا ہے کہ فلسطین کا بدلہ امریکہ میں آگ سے لیا جارہا ہے ۔ فلسطین کے لیے پاکستان کے لوگوں نے کیا کیا ہے ماسوائے ان چند کاروباری چندہ کرنے والوں کے جنہوں نے فلسطینیوں کے نام پر اپنے چندے کے کاروبار کو زندہ رکھا ہوا ہے ۔جبکہ اس کے مقابلے میں امریکہ کی گیارہ یونیورسٹیوں نے مہینوں تک احتجاج کرکے اور امریکی نظام کو مفلوج کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور امریکہ کی حکومت کو مجبور کرایا ہے کہ وہ فلسطینیوں پر مظالم بند کروائے ۔ امریکہ میں جتنے جلسے اور ہڑتالیں فلسطین کے لیے ہوئے ہیں وہ پوری دنیا میں کہیں پر بھی نہیں ہوئے ۔ سعودی عرب ،متحدہ عرب امارت یہاں تک افغانستان جہاں بقول ان کے شرعی حکومت ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔ امریکہ میں انسانی حقوق کے علمبرداروں نے امریکہ کے سیاست دانوںکا جینا حرام کردیا تھا اور انہیں کسی بھی تقریب میں شرکت کرنے اور بولنے نہیں دیا ۔ فلسطینیوں کو سب سے زیادہ امداد بھی امریکہ ہی کے لوگوں نے دی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ امریکہ کی حکومت فلسطین کے معاملے میں اسرائیل کے ساتھ شامل نہیں ہے ۔ امریکی حکومت اسرائیل کی سرعام حمایت کرتی ہے اور اس کی ہر طرح سے مدد کرتی ہے لیکن امریکہ میں بسنے والے لوگ امریکہ کی ان پالیسیوں کی مکمل حمایت نہیں کرتے ۔امریکہ میں لگنے والی آگ سے متاثرہ لوگ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے فلسطینوں کے لیے آواز اٹھائی ہے اور لاس اینجلس کے شہری فلسطین کو امداد دینے والے لوگوں میں سرفہرست رہے ہیں ۔ اس لیے ہمیں بطور مسلمان کسی کی بھی بربادی پر خوش نہیں ہونا چاہئیے اس لیے کہ جب سیلاب آیا تھا تو اسی شہر کی ایک باسی انجیلنا جولی امداد لیکر ان سیلاب زدگان کی مدد کے لیے پاکستان آئی تھی ۔ جب بھی پاکستان پر کوئی مشکل وقت آتا ہے تو سب سے زیادہ امداد ہمیں امریکہ کے خیراتی ادارے اور لوگ دیتے ہیں ۔ لیکن جس طرح ہمارے لوگ اس آگ کو لیکر خوش ہورہے ہیں وہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔حادثات پر خوش ہونا جاہلوں کی نشانی ہے اس لیے کہ حادثات امیر غریب ،مسلمان عیسائی ، ہندو ، سکھ ، یہودی یا لادین میں تمیز نہیں کرتے اس کی زد میں انسان آتے ہیں ۔ انسان چاہے فلسطین کے ہوں یا امریکہ کے ان کو پہنچنے والا دکھ یا نقصان ساری انسانیت کا نقصان ہے ۔ کیا پاکستان میں آنے والے سیلاب اس وجہ سے آتے ہیں کہ ہم نے کچھ ایسا کیا ہے نہیں یہ عالمی طور پر سب کی کوتاہی اور غفلت سے ہورہا ہے جس کی ذمہ داری سب کی بنتی ہے ۔ اس طرح حادثات بھی انسانی کوتاہی اور غفلت کا نتیجہ ہوتے ہیں انہیں کسی خاص مسلک و مذہب کے انتقامی کاروائی کے طور پر دیکھنا کسی بھی طور درست نہیں ہے اس لیے کہ جب یہاں ایسی کوئی مصیبت آئے گی تو ان لوگوں کے پاس پھر کونسی دلیل ہوگی ۔ ہمارے مذہبی لوگوں اور معاشرے کے دیگر سرکردہ لوگوں کو ایسی باتوں کی سرزنش کرنی چاہئیے تاکہ ہمارے لوگ نفرت کے جذبات سے نکل کر انسانیت کے وسیع تر عالمی سلسلے میں جڑ جائیں اس لیے کہ دنیا ایک گلوبل ویلج ہے اس میں جب پوری دنیا کے لوگ ایک سوچ رکھتے ہوں اور ہمارے لوگ ایسے کاموں کو اپنے بدلے کا نتیجہ سمجھیں تو یہ عمل مستقبل قریب میں ہمیں پوری دنیا سے کاٹ کر رکھ دے گا ۔ پاکستان اس وقت دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں شامل ہے ، ہم دنیا میں سب سے زیادہ ملاوٹ کرنیوالے لوگوں میں بھی شامل ہیں ۔ قانون کی پاسداری نہ کرنیوالوں میں بھی پاکستان کو امتیازی حیثیت حاصل ہے ، ایسے میں ہمارا اخلاقی معیار کیا ہے کہ ہم دنیا کے ان لوگوں چیلنج کریں جو ایمانداری میں ہم سے ہزار گنا بہتر ہیں ، قانون کی پاسداری کرنے میں سب سے آگے ہیں اور ان کے ڈاکٹر کسی مریض کو نہیں لوٹتے ، کسی غریب کا اپنے فائدہ کے لیے آپریشن نہیں کرتے، کسی غریب کو درجنوں غیر ضروری ٹسٹ لکھ کرنہیں دیتے اور کمپنیوں سے کمیشن کے لیے اضافی اور غیرضروری ادویات لکھ کر نہیں دیتے ۔ لاس اینجلس کی آگ سے وہاں کے لوگوں کا جو نقصان ہوا ہے وہ ان لوگوں کو فوری انشورنس کی مد میں مل جائے گا اس لیے کہ وہاں سب کچھ انشورڈ ہوتا ہے ۔ لیکن ہمارے لوگوں کے غیر انسانی سوچ اور حرکات سے بننے والی فضا سے ہمارے کچھ لوگوں کے اندر موجود انسانیت بھی دم توڑ دے گی ۔ آگ میکڈونلڈ ،گرجے اور لاس اینجلس میں موجود مساجد کو بھی جلا چکی ہے ۔ لاس اینجلس میںایک ملین سے زیادہ مسلمان آباد ہیںوہ بھی اس آگ سے متاثر ہوئے ہیں ۔ ہمیں ان سمیت تمام انسانوں پر پڑنے والی مشکلات میں ان کے ساتھ ہمدردی کرنا کا شیوہ اپنانا چاہئیے کہ یہی ہمارا مذہب کہتا ہے ۔اور آگ کو مذہب کے ساتھ نہ جوڑیں ایسا نہ ہوکہ کل ہمارے ہاں ایسا کوئی حادثہ ہو اور پھر لوگ ہماری دلیل ہمارے خلاف استعمال کریں ۔
