”مخالفت جہالت کا دوسرا نام ہے”

ایک دور ایسا گزرا ہے جب حاکم بذات خود عالم ہوتا تھا،مثلاً خلفائے راشدین خود علماء تھے اور مسلمانوں کے امام تھے،پھر ایک ایسا دور آیا کہ حاکم خود تو عالم دین نہیں ہوتا تھا مگر وہ عالم دین سے مدد لیتا تھا۔اس سے مشورہ لیتا اور اسے اپنے قریب رکھتا تھا۔اس کی رائے اور نصیحت پر کان دھرتا تھا،پھر یہ دور شروع ہوا جو آب تک جاری ہے کہ عالم دین حکمران وقت سے اور حکمران وقت عالم دین سے دور ہوگیا اور یہ دور گزشتہ ادوار کی نسبت زیادہ سخت دور ہے بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ عالم دین حاکم وقت کا دشمن ہوگیا اور حاکم وقت عالم دین کا۔بہت سے حکمرانوں کی نظر میں وہ علماء جرم کے مرتکب ہیں جو شریعت کے نفاذ کی دعوت دیتے ہیں۔حکام کی نظر میں ہر علماء دستور وقانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔یہ انحطاط اور زوال جو علماء اور حکومتوں کے تعلق میں پیدا ہوگیا ہے اس نے علماء اور حکمرانوں کو ایک دوسرے کے خلاف اور آمنے سامنے کھڑا کردیا ہے ۔ان کے درمیان دین ودنیا کی دیوار کھڑی کردی گئی ہے اور جب تک یہ دیوار گرے گی نہیں امت کا معاملہ درست نہیں ہوسکتا۔یہاں ہر بندہ آپنے آپ کو مفتی سمجھتا ہے۔یہاں بعض مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے عجیب طرح کی ذہنیت کے لوگ ہوتے ہیں وہ اختلاف اور مخالفت کو بھی ہم معنی سمجھتے ہیں اور پھر اس مخالفت کی آڑ میں گالی گلوج اور سب وشتم پر اتر آتے ہیں۔
دور حاضر میں حکومت کسی ایک فرد کا نام نہیں ہے بلکہ ایک پورا سسٹم ہے جس کی تحت حکومت کی جاتی ہے۔حکمران کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی رعایا سے دوستانہ تعلقات قائم رکھے،ناخوشگوار حالات میں وہی اس کا سہارا بن سکتے ہیں ۔کوئی بھی معاشرہ یا ملک اسی صورت میں اجتماعی ترقی کرسکتا ہے کہ جب وہاں عوام اور حکومت کے مابین تقسیم شدہ حقوق
وفرائض میں مساوات پائی جاتی ہو اور جہاں ہر دو طبقات اپنی بنیادی زمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کو آپنا سب سے بڑا فرض تسلیم کرتے ہوں ۔ہمارے یہاں وہ اعتراض کرنے والے حضرات جو عوام کو ہر دوسری بات پہ صرف ایک ہی جواب دے کر چپ کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم نے اس ملک کو دیا کیا ہے ان سے اگر پوچھا جائے کہ حکومت نے اس عوام کو ستتر سال میں جو بھوک ،غربت،قرض،احساس محرومی ،قانون شکنی،اور جمہوری حق سے محروم رکھ کر جبر،دھونس،اور جھوٹ کے بل بوتے پر اپنا کاروبار چمکایا ہے اس کا جواب کون دے گا ۔عوام کو ان کے حقوق فراہم کرنا ریاست کی پہلی ذمہ داری ہے اور اگر ریاست اس میں غفلت کی مرتکب ہوتی ہے تو وہ عوام سے بھی ان کے فرائض کا تقاضا کرنے میں حق بجانب نہیں ہے ۔پاکستان کے حالات بہتر بنانے کیلئے اقتدار کے ایوانوں میں سچے، مخلص، اور اہل افراد کی ضرورت ہے ۔ہمارے ہاں
ایسے لوگ حکمران ہونے چاہئیں ،اللہ کے آگے جواب دہ ہونے کا یقین جن کے دلوں میں جڑ پکڑ چکا ہو۔قیادت جب سچے اور اہل لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے تو راستے کی سختیاں اور روکاوٹیں آسان اور تیزی سے دور ہونے لگتی
ہیں۔پاکستانی معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہے۔اس میں اطاعت خداوندی ایک بنیادی قومی اور مذہبی قدر ہے جبکہ امریکہ میں جہاں مذہب کو انفرادی حیثیت دی گئی ہے وہاں فرد کے کی معاشی اہلیت کو قومی قدر قرار دیاگیا ہے یوں ہی اسلامی معاشرہ میں عاقبت کی فلاح کا حصول ایک بنیادی قدر کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ اشتراکی یا دوسرے لادین معاشرے جو آخرت کی زندگی کے قائل ہی نہیں ہے ان کے نزدیک مادی خوشحالی اور ترقی ہی سب سے بڑی قدر ہے،اس لیے اسلامی معاشرہ کی اقدار آفاقی اور ابدی ہیں جبکہ دیگر معاشروں میں اقدار وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔نظریہ پاکستان میں جس خیال کو اولیت حاصل ہے وہ اسلامی قومیت کا تصور ہے۔پاکستان کے قیام کا مقصد اسلامی تہذیب وثقافت کی حفاظت ہے کیونکہ دنیا میں یہی تہذیب و ثقافت ہماری پہچان ہے چنانچہ اس کے فروغ اور تحفظ کے لئے ہمیں ہر وقت کوشاں رہنا چاہیے۔یاد رکھو ! انقلاب میں جس کا کھلا خاکہ اسلام نے پیش کر دیا ہے ،
ہر مسلمان ، سیاسی جماعت ، گروہ ، لیڈر اور سیاسی،غیر سیاسی جماعت کو کھلا موقع ہے کہ وہ ہر صوبے،شہر میں لوگوں کو اسلامی طریق پر منظم کردے۔تمام رعیت کو ایک نظام میں پرو دینا ہی میرے نزدیک انقلاب ہے۔قومی امور میں آج تک ہمیشہ علماء کا مثبت کردار رہا ہے اور اگر وہ کردار نظر نہیں آتا جو پہلے زمانوں میں تھا اس کے کئی وجوہات ہیں۔پہلے علماء کے پاس مادی وسائل اپنے تھے جبکہ دور حاضر میں علماء سیاسی حکومتوں کے ملازم ہیں لیکن پھر بھی اللہ کا شکر ہے کہ علمائے حق ہمیشہ موجود رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں اختلاف رائے اور مخالفت کے ایک ہی معنی سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے باالکل برعکس ہے کیونکہ اختلاف رائے ایک جائز عمل کا نام ہے اور مخالفت جہالت کا دوسرا نام ہے۔ہمارے ملک میں معیشت پہلے ہی ڈانواں ڈول ہے۔مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے۔سیاسی عدم استحکام نے ملک کی حالت بری کی ہوئی ہے تو ایسے موقع پر عوام کو یکجہتی کی ضرورت ہے نہ کہ ایسی کاوش کرنے کی جس سے ملک کے اندر انتشار پھیلے۔اپنے انفرادی اختلاف کو اجتماعی مخالفت میں بدلنے سے ایک طرف ملک کا نقصان ہوتا ہے تو دوسری طرف عوام کی حالت اور زیادہ خراب ہوتی ہے۔ میرے خیال میں عدم برداشت کی یہ روش موجودہ انتشار کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔کوئی گروہ کسی مخالف یا الگ خیالات رکھنے والے گروہ کا نقطہ نظر سننے کو تیار تک نہیں جس کی وجہ سے معاشرے کا پر امن رہنا ناممکن نظر آتا ہے۔معاشرے کے ساتھ ساتھ ریاست نے بھی جلتی پر تیل کا کردار ادا کیا ہے۔ ایسا کچھ بھی کرنے کی توفیق نہ ہوئی جس سے معاشرے کے مختلف گروہوں یا طبقوں کے مابین ہم آہنگی بڑھ سکے۔ آئیے اپنے ملک کی قدر کریں،اسے پہچانیں اس کی سب اکائیوں کو اکھٹا رکھنے میں آپنا کردار ادا کریں تاکہ کل آپ کا نام بھی تخریب کاروں کے بجائے ملک اور معاشرے کے معماروں میں شامل ہو۔

مزید پڑھیں:  کورم کی نشاندہی پر سوال؟