صدر ٹرمپ اور پاک امریکہ تعلقات

دوسری دفعہ امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکا میں سنہرے دور کا آج سے آغاز ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی ملک کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمارا فائدہ اٹھائیں، ٹرمپ انتظامیہ میں ہر ایک دن میں امریکا سب سے پہلے کے نظریے پر کار بند رہیں گے۔امریکہ میں نئے صدرکے حلف اٹھانے سے قبل ہی پاکستان میں اس حوالے سے تبصرے اور اندازے شروع ہوئے تھے ۔ جہاں تک ان کے اعلانات و اقدامات کاتعلق ہے اس سے پاکستان پر اثرات ثانوی نوعیت ہی کااندازہ ہے یہاں تک کہ جوبعض سیاسی نوعیت کی امیدوں کی وابستگی کا اظہار ہو رہا ہے ایک بڑے ملک کے صدرسے اس سطح کے معاملات میں کم ہی توقعات ہوتی ہیں لیکن اگر ماضی میں دیکھا جائے تو مختلف مواقع پر ایسا ہوا بھی ہے اور ایک امریکی صدر فون پر یقین دہانیپر تسلی نہ ہوئی اور وہ پاکستان تشریف لائے ایسے میں صدر ٹرمپ کچھ بھی کر سکتے ہیں کا جو تاثر رکھتے ہیںان سے بعید نہیں کہ وہ یا پھر ان کی ایماء پر کچھ اشارے دیئے جائیں یوں بدتر کی تیاری کرتے ہوئے اچھے کی امید رکھنی چاہئیامریکہ کے لئے چین ایک ایسا معمہ ہے جسے سلجھانے کے لئے پاکستان کے کردار کی ضرورت پڑ سکتی ہے لیکن پاکستان کسی بھی چین مخالف اتحاد کاحصہ بننے کا متحمل نہیں ہو سکتا بنابریں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کسی نمایاں بہتری کے امکانات ابھی سے معدوم نظر آتے ہیں اور ماضی کی طرح اب امریکہ کاافغانستان کے حوالے سے انحصاربھی زیادہ نہیں رہا۔بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات ایسے ہی معمولی نوعیت ہی کے رہیں گے جب تک اسلام آباد کچھ ایسے معاملات کا اشارہ نہ دے جس میں واشنگٹن کو اس کی مدد کی ضرورت ہو ۔ ماضی میں دیکھا جائے تو بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ طویل مدتی باہمی مفادات نہ ہونے کی وجہ سے دونوں کے درمیان کبھی بھی اسٹریٹجک تعلقات قائم نہ ہوسکے۔ اس طرح کے تعلقات دونوں ممالک کے دیگر مفادات کے منافی ہوں گے۔ مثال کے طور پر یہ ماضی میں تضادات کا باعث بنتا رہا ہے جیسے جوہری معاملے پر باہمی تعلقات میں تحفظات اور دوسرے ممالک بالخصوص چین اور بھارت کے ساتھ ان کے تعلقات میں اختلافات وغیرہ۔ان تحفظات کی پاکستانی میزائل پروگرام پر تازہ ترین امریکی پابندی سے زیادہ بہترین مثال کوئی نہیں ہوسکتی۔ پاکستان اور امریکا واضح طور پر اس پروگرام کو مختلف نظریے سے دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے پروگرام پر پابندیاں لگانے کا تعلق بھارت کے سیکیورٹی خدشات سے ہے اور اسے نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم امریکہ نے موقف اپنایا ہے کہ پاکستان کا میزائل سسٹم امریکی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ پروگرام کے حوالے سے یہ گمراہ کن موقف اختیار کرکے خطے میں اسٹریٹجک عدم توازن بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ چین سے مقابلہ کرنے کی بھارت کی طاقت میں اضافہ ہو۔ تاہم اس معاملے کو ٹرمپ انتظامیہ کے سامنے ریڈ الرٹ کے طور پر اٹھانا، دوستانہ اقدام نہیں ہوگا۔پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات ضروری ہیں لیکن پاکستان کا امریکا پر انحصار کرنا ضروری نہیں۔ پاک-امریکا تعلقات کا رسمی اتحاد قائم کیے بغیر بھی ایک مستقبل ہے جسے خراب تعلقات کے طور پر ہر گز نہیں دیکھنا چاہیے۔ درحقیقت یہ تو فائدہ مند بھی ہوسکتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے امریکی امداد نے پاکستان میں خراب تعلقات بہتر کرنے میں مدد کی ہے جبکہ ملک کے اپنے قومی مفادات کے خلاف کام کرنے کے لیے اشرافیہ پر دبائو ڈالنے کے لیے واشنگٹن کیا اس وقت جدوجہد کرتے پاکستان اور اس کی قرضوں میں ڈوبی معیشت کو بیرونی مدد کی ضرورت ہے۔ یہ مدد نہ صرف چین، خلیجی ممالک اور مغرب سے درکار ہے بلکہ ہمیں بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے بھی امداد چاہیے جوکہ واضح طور پر امریکا کے زیرِ اثر ہیں۔ایسے میںابھی ہماری بنیادی توجہ اس بات پر مرکوز ہونی چاہیے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان مستقبل کے تعاون وسیع تر قومی مفادات پر مبنی ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معمول کے معاشی اور کاروباری تعلقات استوار کرنے کے ساتھ ساتھ سلامتی کے مشترکہ چیلنجز جیسے دہشتگردی سے نمٹنے میں تعاون کی ضرورت ہوگی۔ دونوں ممالک انسدادِ دہشتگردی سے متعلق کیا حکمت عملی اپناتے ہیں، یہ اہم ہوگا۔ جبکہ افغانستان میں استحکام قائم کرنے سے ان کے باہمی مفادات وابستہ ہیں۔اس کے علاوہ جغرافیائی سیاسی عناصر بھی ہیں۔ امریکا، پاکستان میں چین کے بڑھتے ہوئے سیاسی اور معاشی اثر و رسوخ پر قریب سے نظر رکھنا چاہے گا جبکہ وہ یہ بھی یقینی بنائے گا کہ پاکستان انڈو-پیسیفک اسٹریٹجی میں بھارت کے کردار کو کمزور نہ کرے۔ اس کے حصول کے لیے آپس میں روابط کی ضرورت ہوگی۔

مزید پڑھیں:  رمضان کی آمد سے قبل ہی مہنگائی