پشتو زبان میں ایک ضرب المثل بہت مشہور ہے جو کچھ یوں ہے کہ ” ماماسترگے دے سرے ، لکئی ببرہ” اس کا سلیس اردو میں ترجمہ یوں بن تا ہے کہ ”ماموں تمہاری آنکھیں سرخ انگارہ ہیں یعنی ان سے شعلے نکل رہے اور تمہاری دم تن کر کھڑی ہوگئی ہے ”۔ اس ضرب المثل کے پیچھے ایک کہانی ہے اور وہ یہ کہ ایک بار جنگل میں شیر کی چیرہ دستیوں سے تنگ آکر چند جانوروں نے صلاح مشورہ کرکے شیر کو اس کے منصب سے ہٹانے کافیصلہ کیا، مگر اس کے مقابلے میں کس جانور کو لاکھڑا کیاجائے یہ سوال اپنی جگہ بڑا اہم تھا جس بھی جانور کو شیر کا مقابلہ کرنے کا کہا جاتا وہ انکار کردیتا ، ابھی یہ صلاح مشورہ جاری تھا کہ سامنے سے ایک گدھا ڈھینچوں ڈھینچوں کرتے آتا دکھائی دیا ، لومڑی نے مشورہ دیا کہ اس سے بڑا طاقتور اور کون ہوگا ، کیون نہ اسے شیر کے مقابلے پراتار دیاجائے اور یوں شیر کی بادشاہی سے جان چھڑا لی جائے ، سب نے اتفاق توکیا مگر مسئلہ گدھے کو مقابلے پر آمادہ کرنے کا تھا ، لومڑی نے یہ ذمہ داری اپنے اوپر اٹھا لی اور جیسے ہی گدھا نزدیک آیا لومڑی نے آگے بڑھ کر اس کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا ، آئیے آئیے بادشاہ سلامت ، ماشاء اللہ آج تو آپ کی شخصیت پرایک خاص نکھار چھایا ہوا ہے ”گدھے نے یہ سن کر کہا میں تو بادشاہ نہیں ہوں جنگل کا بادشاہ تو شیر ہے ، مگر لومڑی کہاں چوکنے والی تھی ، اس نے زبان میں طراوٹ اور لجاجت بھرتے ہوئے خوشامندانہ لہجے میں کہا یہی تو غلط فہمی ہے آپ کی ، بھلا شیر تمہارے سامنے کہاں پانی بھر سکتا ہے ، اور تمہاری قوت کے سامنے کہاں ٹھہر سکتا ہے ، اس لئے ہم سب نے فیصلہ کیا ہے کہ اب شیر کی بادشاہی ختم اور آج سے تم ہمارے حکمران ہو ، گدھے نے لومڑی کی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر ہو کر سوچا کہ کہتے تو یہ سب ٹھیک ہیں ، بھلا میرا اور شیر کاکیا مقابلہ ، پھر اس نے لومڑی سے کہا ، مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے ، بھلا شیر کو اس کے منصب سے کیسے ہٹایا جا سکتا ہے ؟ لومڑی نے کہا تم فکر مت کرو ، ابھی شیر کہیں نہ کہیں سے چکر لگاتا ہوا دھر آتا ہی ہوگا جیسے ہی وہ نظر آئے تم اسے چیلنج کر لینا ، ہم سب تمہاری حوصلہ افزائی کے لئے موجود ہوں گے ،بس جیسے ہی شیر قریب آجائے میں تمہیں کہوں گی کہ تمہاری آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی ہیں تمہاری دم تن کر اور اس کے اوپر بال کھڑے ہو کر تمہارے غصے میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں یہی وہ موقع ہوگا بس تم شیر کو رکھ کر ایک لات بلکہ دولتی مار کر بھگا دینا ، اس کے بعد جنگل کی بادشاہی خود بخود تمہاری قدموں میں آگرے گی ، اس اثنا میں شیر بھی کہیں سے آنکلا اور مختلف جانوروںکو اکٹھا دیکھ کر اس کا ماتھا ٹھنکا ، وہ خرامان خرامان آگے آتے ہوئے جانوروں کے اس خود ساختہ جرگہ کے قریب آیا توچھوٹے جانور تو ادھر ادھر دبک گئے مگر لومڑی نے گدھے کو چمکارتے ہوئے کہا ، بادشاہ سلامت ، تمہاری آنکھیں غصے سے سرخ ہو رہی ہیں ، ان میں سے چنگاریاں نکل رہی ہیں تمہاری دم کے بال کھڑے ہوگئے ہیں اب تمہارے غصے کا پارہ اوپر چڑھ رہا ہے جائو اور ہزاروں برس سے جنگل پر قبضہ کرنے والے کی بادشاہی کو چیلنج کرو اور اسے ایک دولتی جھاڑ کر فرار پر مجبور کرو لومڑی مسلسل گدھے کو اکسا رہی تھی ”ما ما سترگے دے سرے ، لکئی ببرہ” یعنی ماموں تمہاری آنکھیں لال انگارہ ہو رہی ہیں ان میں شدید غصہ بڑھ رہا ہے تمہاری دم کے بال کھڑے ہو کر خطرناک شکل اختیار کر رہی ہے ، یہ الفاظ سن سن کر گدھے اپنے تئیں یہی سوچا کہ واقعی وہ شدید غصے میں آرہا ہے اس نے آگے بڑھ کر جیسے ہی شیر پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی ، شیر نے اپنی چھٹی حس کے مطابق خطرہ بھانپتے ہوئے ایک پنجہ ایسا مارا کہ گدھے کو چھٹی کا دودھ یاد آگیا اور وہ شیر کے حملے کی تاب نہ لاسکتے ہوئے درد سے کراہتے ہوئے ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا ایک جانب ایسا بھاگا کہ اسے دیکھ کر دوسرے جانور بھی جان بچانے کے لئے جس کے جدھر سینگ سمائے بھاگنے اور جان بچانے پر مجبور ہو گئے اور بقول احمد خلیل
شب کے دامن میں وہی نور بھریں گے احمد
جن چراغوں نے اندھیرے سے بغاوت کی ہو
یہ کہانی ، داستان ، ضرب المثل یا جو بھی آپ سمجھتے ہیں اس حوالے سے یاد آئی کہ ملکی سیاست کے ایک اہم کردار کو گزشتہ کچھ عرصے سے اس کے گرد بیٹھے ہوئے بعض کرداروں نے ”ڈٹ کے کھڑا ہے”کے بیانئے کے فلسفے میں الجھا کر کسی کام کا نہیں چھوڑا ، اور جب بھی ملک میں سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت کا احساس جنم لیتا یہی لوگ اسے ”ماما سترگے دے سرے لکئی ببرہ” کا نغمہ سنا سنا کر ڈٹ جانے اور مخالفین کو ”انسان” تک نہ سمجھنے کا سبق پڑھا پڑھا کر مذاکرات سے دور ہونے کا درس دیتے رہے ہیں جس کے نتیجے میں جنگل کی محولہ بالا کہانی ”سٹیج ہوتے”آسانی سے دیکھی جاتی رہی ہے حالانکہ بقول زہر ہ نگاہ ، جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے اور اس حوالے سے ان کی ایک آزاد نظم ”سنا ہے ” کے نام سے بہت ہی مقبول ہے جو دراصل انہوں نے جنگل کے استعارے کو لے کر انسانوں کوسوچنے سمجھنے پرآمادہ کرنے کی کوشش کی ہے یعنی
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے
تو وہ حملہ نہیں کرتا
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
توندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو
پڑوسی مان لیتی ہیں
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے گھر کو بھول کر
کوے کے انڈوں کو پروں میں تھام لیتی ہے
سناہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گرے تو
سارا جنگل جاگ جاتا ہے
ندی میں باڑ آجائے ، کوئی پل ٹوٹ جائے
توکسی لکڑی کے تختے پر
گلہری ، سانپ ، چیتا اور بکری ساتھ ہوتے ہیں
سناہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوند جلیل و معتبر
دانا و بینا منصف و اکبر
ہمارے شہر میں اب
جنگلوں کا ہی کوئی دستور نافذ کر
