آج کل کے ماتحت بڑے طوطا چشم ہوتے ہیں محفل میں ایک صاحب کو شکایت تھی پہلی مرتبہ ان کی بات حاضرین محفل نے سنی ان سنی کردی تو دوسری مرتبہ پھر انہوں نے یہ شکوہ دہرایا تو ساتھ بیٹھے ہوئے شخص نے ان سے پوچھا کہ اس کی وجہ پر کبھی غور کیا جواب دیا کہ اس پر غور کیا کرنا آج کل بھلائی کا زمانہ ہی نہیں برسوں لوگ آپ کے ساتھ کام کریں گے اور جب چلے جائیں گے تو آمنے سامنے آنے پر بمشکل ہی کوئی احترام سے سلام و آداب کہے گا تب دوسرے صاحب نے سنجیدگی سے کہا کہ وجہ جاننا چاہتے ہو تو میرے ایک سوال کا سچ سچ جواب دو مجھے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے ٹھیک ہے ضرورت تو نہیں لیکن اگر کہیں خجالت محسوس کرو تو الفاظ میں اس کا بیان کرو یا نہ کرو دل ہی دل میں اپنے آپ سے کہو ضرور چلیں ٹھیک ہے سوال یہ ہے کہ کبھی آپ نے کسی سے بھلائی کی ہے لوگ باقی باتیں تو بھلا دیتے ہیں اور ا سے بھول بھی جاتا ہے مگر بھلائی کی کوئی چھوٹی بات بھی ان سے بھولتی نہیں اور نہ وہ اس شخص کو بھلاتے ہیں بلکہ وہ جہاں بھی جائیں جہاں بھی ہوں برسوں گزر جائیں وہ نہ تو بھلائی کو بھلاتے ہیں نہ اسی شخص کو اور نہ ہی ان کے ا لفاظ یا فعل کو ایسا انسان کا بچہ کم ہی ہوتا ہے شکوہ کناں صاحب بول اٹھے انسان کے بچے سارے ہی ہوتے ہیں چلیں ایک آدھ کی گنجائش رکھ لیتے ہیں جو طوطا چشم ہوں گے باقی ننانوے فیصد لوگ وہ ہوتے ہیں جو نہ صرف انسان کے بچے ہوتے ہیں بلکہ وہ بہت اچھے بچے بھی ہوتے ہیں کوئی ان کے ساتھ احسان کرے وہ مرتے دم تک اسے نہ صرف یاد کرتے ہیں بلکہ موقع بہ موقع اس کا تذکرہ و تکرار بھی کرتے ہیں اور اپنے محسن کو ہمیشہ اچھے الفاظ اور احترام سے یاد کرتے ہیںیہ لوگ ہی ہوتے ہیں جو بھلائی کرتے نہیں اور الزام دوسروں کو دیتے ہیں چلیں آپ بتائیں آپ اپنے ملازمین سے کیسے پیش آتے ہیں اپنے ادارے میں کام کرنے والوں سے آپ کے تعلقات کی نوعیت کیسی ہوتی ہے تنخواہ کے علاوہ مالی مراعات اگر نہیں بھی دیتے تو کیا کبھی یہ کوشش کرتے ہیں کہ جس میں آپ کا کوئی نقصان نہ ہو اور ان کا فائدہ ہو کبھی کوئی اور خیر خواہی کا عمل کبھی آپ نے سوچا یا انجام دیا ہو موصوف سوچ میں پڑ گئے اگلے صاحب کہنے لگے میں نے پہلے ہی آپ کو موقع دیا ہے کہ مجھے جواب نہ دیں دل میں سوچیں اگر کر رہے ہوتے تو آج یوں شکوہ کناں نہ ہوتے وہ گویا ہوئے میرے ایک کارکن تھے بیچارے دو دو جگہ ملازمت کرکے اپنا گزارہ چلاتے پھر دوسری جگہ جب ان کی شفٹ دن کو ہو گئی تو انہوں نے آکر مجھ سے رخصت لی اور پھر شاید ہی کبھی ملاقات ہوئی ہو لیکن پھر ملاقات تو نہیں ا لبتہ واٹس ایپ پر رابطہ ہو گیا اور اچھا رابطہ رہا کچھ دن پہلے میرے ادارے کے قیام کو چالیس سال ہو گئے تو سوچا کہ پرانی یادیں تازہ کی جائیں سب کو بلایا اور ہر کسی نے اپنی یادیں دہرائیں یقین جانیں میں نے لوگوں کے ساتھ جانے انجانے میں کوئی معمولی سی بھی بھلائی کی ہو گی لیکن ان کو یاد تھا مجھے حیرت ہوئی کہ اس زمانے میں بھی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے چھوٹی چھوٹی باتوں کو سالوں بلکہ پوری عمر یاد رکھا مثال کے طور پر ایک بیان کرتا ہوں جس کارکن کا میں نے ذکر کیا اس نے 1989ء کا ایک کام خود بھی پرنم آنکھوں سے سنایا اور مجھے بھی اشکبار کر دیا۔ سفید داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگے آج میں جس گھر میں رہتا ہوں وہ مالک کائنات کی مہربانی اور میرے اس صاحب کے سبب سے ہے مجھے تو سمجھ نہیں آئی کہ و ہ کہہ کیا رہے ہیں ایک چھوٹے سے ادارے کا مالک دوتین سال کام کرکے چھوڑ جانے والے کارکن کو گھر کیسے دے سکتا ہے کہنے لگے جب حکومت کی طرف سے محنت کشوں کو سرکاری پلاٹس کا کوٹہ ملنے لگا تو میں فارم بھر کر پہلے والے صاحب کے پاس گیا تو انہوں نے سردمہری سے کہا کہ ابھی دو چار ماہ ہی ہوا ہے تم میرے پاس کام کر رہے ہو میں دستخط کروں بھی تو پتہ نہیں تمہارا کام ہو گا بھی یا نہیں میں نے دوسری بات نہ کی صاحب کی میز سے فارم اٹھایا اور آپ کے پاس آیا آپ نے فارم پڑھے بغیر زبانی مدعا سنا اور پوچھا کہ دستخط کہاں کرنا ہے بتانے پر دستخط کیا اور ساتھ میں ہاتھ اٹھا کر دعا بھی کی کہ اگر میرے دستخط سے تمہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو میں دعا کرتا ہوں کہ مالک حقیقی اسے تمہارے حق میں ضرور قبول فرمائے ۔ آمین قصہ مختصر قرعہ اندازی میں ان کا پلاٹ نکل آیا اور کوئی 35سال بعد یہ قصہ میں آپ کو سنا رہا ہوں ۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اس طرح کے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ہوتے ہیں جو ہر وقت دوسروں کو الو بنانے میں لگے ہوتے ہیں اور مجال ہے کہ وہ کسی کو مفت کا فائدہ دینے کو بھی آمادہ ہوں جو لوگ آسانیاں بانٹتے ہیں وہ اس کی طرف متوجہ رہتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جو بھی ان سے ہو سکے وہ دوسروں کے لئے ضرور کریں پھر لوگ بھی ان کو یاد رکھتے ہیں اور عزت بھی ملتی ہے اور دعائیں بھی جو لوگ ہر وقت دوسروں کے استحصال میں لگے ہوتے ہیں ان کو کوئی کیوں یاد رکھے یاد تو اچھی یادوں اور نیکیوں کو رکھا جاتا ہے استحصال اور بری باتیں تو فراموش کرنے کے لئے ہوتی ہیں اپنے ارد گرد دیکھیں تو بہت سی ایسی مثالیں ملیں گی نیکی کرنے کے لئے صاحب اختیار ہونا ضروری نہیں ہوتا یہ جو چھوٹے چھوٹے کام کرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی جب لوگوں کے کام آتے ہیں تو وہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ صاحب خوش ہوں صاحب کا کام ایسا کرکے دیں کہ ان کو شکایت نہ ہو آپ میں ہر دوسرے کو ہی یہ تجربہ ہو گا کہ وہ جو فلاں ترکھان نے گھر میں کام کیا تھا وہ بہت اچھا تھا آپ کو کوئی الیکٹریشن پسند آیا ہو گا تو ہر سال گھر کے اے سی صاف کروانے کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً کام کے لئے آپ انہی کو بلاتے ہوں گے یہ سب کیا ہے بھلائی کے بدلے بھلائی ہے تبھی تو کہا جاتا ہے کہ نیکی نیکی ہوتی چھوٹی نہیں ہوتی اسی طرح انسان بھی چھوٹے بڑے نہیں ہوتے نہ ہی کوئی پیسہ اور کاروبار چھوٹابڑا ہوتا ہے چھوٹا بڑا انسان کا کردار اور ان کی شخصیت ہوتی ہے ان کی سوچ ہوتی ہے جو بڑے کردار اور بڑے سوچ کے لوگ ہوتے ہیں وہ کتنے بھی چھوٹے ہوں ان کا قد بڑا ہوتا ہے اور جو بڑے لوگ خود کو کہلاتے ہیں اگر ان کا کردار اور سوچ بڑی نہ ہوتو بڑے کہلائے بھی جائیں تو ہوتے نہیں اور نہ ہی کوئی ان کوبڑا سمجھتا ہے اور یاد کرتا ہے یاد ہمیشہ صاحب کردار اور نیک دل لوگوں کو کیا جاتا ہے بونوں کو نہیں۔
