آسانیوں کی جگہ مشکلات؟

صوبائی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے ایک اجلاس میں صحت کارڈ پلس میں تبدیلیوں کے حوالے سے بتایاگیا ہے کہ صوبائی حکومت اپنی انشورنس کمپنی بنانے پر غور کر رہی ہے جوصوبے کی پہلی ا نشورنس کمپنی ہو گی اور صحتکارڈ پلس سمیت متعدد انشورنس اقدامات کے لئے کام کرے گی اس موقع پرکمیٹی کو بتایاگیا کہ صحت کارڈ پلس کے لئے تیس ارب روپے سے زیادہ کی رقم نو مہینوں میں جاری ہو چکے ہیں جس سے صوبے کے غریب عوام کو مفت علاج کی سہولت جاری ہے اور یہ وہی صوبہ ہے جس سے یہ سہولت نگران دور حکومت میںختم کی گئی تھی صحت کارڈ پلس کے علاج میں مزید شفافیت لانے کے لئے بائیو میٹرک تصدیق کا نظام لا رہے ہیں تاکہ کسی بھی قسم کی بدعنوانی کااندیشہ نہ ہو ، جہاں تک صوبے کی اپنی انشورنس کمپنی کے قیام اور اس کے ذریعے صحت کارڈ پرعلاج کی فراہمی کاتعلق ہے یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے تاہم جہاں تک اس سلسلے میں ”بدعنوانیوں” کے خاتمے کاتعلق ہے تو اصولی طور پر اس حوالے سے کسی بھی قسم کے اقدامات کوخوش آمدید کہنے میں کوئی حرج نہیں باوجود یہ کہ اس حوالے سے مبینہ ملی بھگت کے ذریعے ماضی میں بدعنوانیوں کے الزامات لگتے رہے ہیں البتہ یہ جو ایک نئی پنج لگانیکی سوچ ابھری ہے تواس کے منفی نتائج پر بھی ضرور غور کرنا چاہئے یعنی بائیو میٹرک تصدیق سے خصوصاً ان بزرگ عمر رسیدہ افراد کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جن کی انگلیوں کی لکیریں عمر بڑھنے کی وجہ سے مٹ جاتی ہیں اور ان کی بائیو میٹرک تصدیق ناممکنات میں سے ہے ایسے افراد جب ہسپتالوں سے رجوع کریں گے اور ان کی بائیو میٹرکتصدیق نہیں ہوسکے گی توانہیں علاج معالجے سے محروم ہونا پڑے گا حالانکہ اس سلسلے میں ابھی حالیہ دنوں میں نادرا نے ان کی آنکھوں کی تصدیق کاایک متبادل طریقہ اختیار کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے مگر جب تک نادرا دفاتر سے متعلقہ مریضوں (عمر رسیدہ افراد) کو گزرناپڑے گا تب تک اگر ان کی بیماری خطرناک موڑ پر ہو تو ان کے علاج معالجے میں تاخیر سے ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اس لئے اگر اسے صرف شناختی کارڈ تک ہی محدود رہنے دیاجائے اور جن کے پاس 60سال سے زیادہ عمر ہونے کی وجہ سے تاحیات شناختی کارڈ موجود ہو ان پر بائیو میٹرک تصدیق کی شرط لاگونہ کیا جائے تاکہ وہ کسی مشکل میں نہ پڑ سکیں۔

مزید پڑھیں:  پاک امریکہ تعلقات