کرپشن کی بکھری ہوئی داستانیں؟

کسی بھی ملک کی ترقی کا راز وہاں کے نظام میں کرپشن کے لئے زیروٹالرنس کا ہونا ہے اور جو قومیں کرپشن میں ملوث ہوتی ہیںان کے لئے عالمی برادری میں اپنی ساکھ برقرار رکھنے اور آگے بڑھنے میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ کرپشن ، بدعنوانی اور دونمبری میں پوری طرح لتھڑا ہوا ہے یہاں ہر ہر سطح پر ہر ہر قدم پر سرکاری اور نجی اداروں کے اندر کہیں سے بھی کسی خیر کی خبر مشکل ہی سے آتی ہے ، اخبارات ہوں یاپھر سوشل میڈیا ، ہر جگہ بدعنوانی ، لوٹ کھسوٹ ،انڈر دی ٹیبل سودے بازیوں اوررشوت ستانی کے مظاہر سامنے آتے رہتے یں جن کی وجہ سے ہم قوموں کی صف میں اپنا باوقار مقام حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں ، تازہ اخبارات میں کرپشن کی غضب کہانیاں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں کہ آخر ہمارا قومی وتیرہ کیا ہونا چاہئے ، اس حوالے سے پہلی خبر پنجاب کے کاشتکاروں سے گندم کی خریداری میں مبینہ کرپشن کے حوالے سے ہے جس پر محکمہ اینٹی کرپشن خیبر پختونخوا نے گندم کی خریداری کے حوالے سے تحقیقات شروع کر دی ہیں ، اس حوالے سے جو تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ خاصی چشم کشا ہیں ، ہری پور ، مانسہرہ اور نوشہرہ سمیت صوبے کے مختلف اضلاع سے گندم کی خریداری کے دوران نچلی سطح پر بے قاعدگیوں کی شکایات موصول ہوئی ہیں بعض مقامات پر من پسند لوگوں سے خریدی گئی اور حق داروں کو نظر انداز کیاگیا ، ادھر ایک اور خبر کے مطابق صوبائی دارالحکومت پشاور میں اربوں کی لاگت سے تیار بی آر ٹی کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہو گئی ہیں مین کاریڈور میں مختلف مقامات میں سڑکیں متاثرہو چکی ہیں جس کی وجہ سے ڈرائیوروں کو سپیڈ کم کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔ مگر بعد میں پرویز خٹک دور میں بی آرٹی کا منصوبہ شروع کرکے پنجاب کی تقلید کی گئی اور جب منصوبے پر بدعنوانی کے الزامات سامنے آئے تو تحقیقات کو عدالتی احکامات کے تحت التواء کاشکار کیا گیا یہ حکم ابھی تک قائم ہے اور اگر اس کی اجازت مل گئی تو مبینہ بدعنوانی کے ہوشرباء داستانیں منظر عام پر آنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا ، یہ تو خیبر پختونخوا میں صوبائی سطح پر بے قاعدگیوں کی کہانیاں ہیں جبکہ وفاقی سطح پر بھی مبینہ کرپشن اور بدعنوانیوں کے حوالے سے جو داستانیں زیر گردش ہیں وہ بھی خاصی پریشان کن ہیں۔پہلی کہانی پاکستان ریلوے کے حوالے سے ہے جس کے مطابق تین سو سے لے کر چار سو کے قریب مسافر اور مال بردار ٹرینوں کے لاپتہ ہوے کی ایک ہوشرباء خبر سامنے آئی ہے اور جن ٹریکس پر یہ ٹرینیں چلاکرتی تھیں ان پر قبضہ ہو چکا ہے ، پٹڑیاں چوری ہو چکی ہیں اور ٹرینوں کی بندش سے حکومت کو پٹرولیم منصوعات کی امپورٹ پر ہر سال اربوں ڈالرز زیادہ خرچ کرنا پڑتے ہیں ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق 1980ء تک پاکستان ریلوے ملک بھر میں چار سے ساڑھے چار سو مسافر ا ور مال بردار ٹرینیں چلایا کرتا تھا جن کی تعداد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہو کر 100سے 110 تک رہ گئی ہے ان ٹرینوں کی تعداد کم ہونے سے نہ صرف ریلوے کی آمدن پر انتہائی منفی اثرات پڑے جبکہ محولہ ٹرینوں کے لاپتہ ہونے اور ریلوے ٹریک بند ہونے پٹڑیاں چوری ہونے سے اربوں کا نقصان ہوچکا ہے اب ظاہر ہے اس صورتحال کی ذمہ داری متعلقہ حکام اور پولیس کی جانب سے نظر انداز کئے جانے ہی سے ہے کہ میلوں پر بچھی پٹڑیاں کیسے غائب ہوئیں اور بوگیاںکہاں چلی گئیں ادھرایف بی آر کے چیئرمین راشد لنگڑیال کے ایک بیان کے مطابق ملک میں سیلز ٹیکس کی مد میں کھربوں روپے کی ٹیکس چوری کاتخمینہ ہے ماہانہ 50 ہزار تنخواہ والا تو ٹیکس دیتاہے جبکہ ماہانہ ڈھائی کروڑ کی آمدن والے کی کمالی چھ لاکھ تو ہو گی انہیں بھی ٹیکس دیناچاہئے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کو بریفنگ کے دوران چیئرمین ایف بی آر کاکہنا تھا کہ بیشتر صنعتی صارفین سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ نہیں ہیں جنہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے نیا قانون لایا گیا ہے امر واقعہ یہ ہے کہ جہاں تک سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ نہ ہونے کا تعلق ہے یہ اپنی جگہ ایک اہم مسئلہ ہے مگر بدقسمتی سے جو ادارے سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں وہاں بھی کھلا کھلم گھپلے کئے جا رہے ہیں اور ایسے صنعتی ، تجارتی یہاں تک کہ چھوٹی سطح کے کمرشل ادارے بھی اشیاء کی خریدو فروخت کے حوالے سے انوائس سسٹم پر عمل نہیں کرتے اور پرنٹیڈ کیش میمو یا انوائس کی جگہ نقد لین دین سے کام چلاتے ہوئے سیلز ٹیکس چور ی کرتے ہیںجب تک ہر انوائس کو دستاویزی نہیں بنایاجائے گااور خرید و فروخت کے ضمن میں باقاعدہ رسید جاری کرکے اس پر سیلز ٹیکس کا اندراج نہیں کیا جائے گا یہ بدعنوانی رکنے کا نام نہیں لے گی اور یہی وہ طریقہ واردات ہے جسکی وجہ سے روزانہ کروڑوں کاسیلز ٹیکس چوری کی نذر ہو جاتا ہے بعض تجارتی ادارے اگرچہ بظاہر رسید بھی جاری کرتے ہیں اور اس پر صارفین سے سیلز ٹیکس کی مد میں رقم کی کٹوتی کا اندراج کرکے یہ رقم بھی دو نمبری کے ذریعے حکومتی خزانے میں جمع کرنے کی بجائے خود ہی ہڑپ کرلیتے ہیں اور قومی خزانے کو اس کے جائزحق سے محروم رکھا جاتاہے اس صورتحال کی تدارک کے لئے جب تک کوئی مربوط سسٹم نہیں لایا جائے گا یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا اورسیلز ٹیکس کی کھربوں روپوں سے قومی خزانہ محروم رہے گا۔

مزید پڑھیں:  آج تک ہوں فقط فریب خیال میں