ہم تو چلے پردیس

دوستو! پہلے ایک سچی کہانی پڑھتے ہیں ۔ باقی باتیں اس کے بعد کریں گے ۔ بے شک سردی اپنے انتہا کو پہنچ چکی ہے اور مزید چند دن جاری رہے گی ۔ جس کے بعد موسم میں تبدیلی شروع ہو جاے گی ۔ سچ مچ کی تبدیلی ۔ کنیڈا جغرافیائی لحاظ سے بہت بڑا ملک ہے ۔ جس میں ہوائی جہاز ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے میں پانچ گھنٹے لیتا ہے ۔ جتنی بھی سردی ہو تمام گھر عمارتیں اور گاڑیاں گرم ہوتی ہیں ۔ پورے کنیڈا کی اس ٹھنڈی دوزخ کو گرم کر کے جنت بنا دیا گیا ہے ۔ پاکستان آیا تو ایک دوست نے کہا کہ یہ تم نے آخری عمر کفر کے نظام میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ میں نے مذاقا کہا کہ اگر آپ لوگوں کے ساتھ جنت گیا تو کچھ عرصے بعد سب وہاں سے بھاگیں گے ۔ مگر ایسا بھی نہیں کر سکیں گے ۔ ان لوگوں کے ساتھ دوزخ گیا تو نعوذباللہ چند سالوں بعد اس میں ائیر کنڈیشنگ کر کے ٹھنڈا ٹھار کر دیں گے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں یہاں کی مسلمانی بہت بہتر ہے ۔ یہاں مالیاتی اور اخلاقی کرپشن بالکل نہیں ہے ۔ پاکستان میں ایمانداری کے ساتھ روزگار اور کاروبار ناممکن ہے ۔ یہاں بے ایمانی کے ساتھ بات کرنا مشکل ۔ کنیڈا میں تقریبا سات مہینے سردی ہوتی ہے ۔ ٹھنڈ اور برف حد سے زیادہ مگر کام نہیں رکتا اور نہ ہی کام میں کوئی ٹھہراو آتا ہے ۔ ۔15 سالہ طالب علم پڑھائی کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم کام بھی کرتا ہے ۔ ڈرائیور بھی بن جاتا ہے ۔ 18 سال کی عمر میں گاڑی کا مالک بن جاتا ہے ۔ بارہویں تک یکساں نصاب کے ساتھ ساتھ بالکل مفت تعلیم ہے ۔ اس کے بعد اکثر کالج میں داخلہ لے کر ٹریڈ سکول میں ہنر سیکھنے جلے جاتے ہیں ۔ جو اگے پڑھنا چاہتے ہیں وہ یونیورسٹی چلے جاتے ہیں لیکن والدین کی جیب پر بوجھ نہیں بنتے ۔ حکومت یونیورسٹی تعلیم کے لیے بلاسود قرضے دیتی ہے ۔ یہ قرضے کا سلسلہ پی ایچ ڈی تک جاری رہتا ہے ۔ تعلیم مکمل ہونے پر قرض کا بڑا حصہ معاف کر دیا جاتا ہے ۔ بقایا قرض کمائی شروع ہونے کے بعد آسان اقساط میں واپس کرنا ہوتا ہے ۔ اگر شادی شدہ ہیں اور طالب علم بھی ہیں تو فیملی سرکاری رہائش گاہ مل سکتی ہے ۔ ماہانہ کرایہ بمع یوٹیلیٹی بلز مبلغ تقریبا 120 ڈالرز بنتا ہے ۔ فی بچہ 500 ڈالرز مہینے کا چائلڈ بینیفٹ ملنے کے ساتھ ساتھ بلا سود قرضے اور سکالرشپ آپ کی راہ دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ یہ سب اس لیے کہ لیڈرشپ ایماندار اور سب لوگ سخت محنت کر کے کماتے ہیں ۔ 18 سال اور اس سے بڑی عمر کے سو فیصد لوگ ٹیکس ریٹرن جمع کراتے ہیں ۔ کئی سال پہلے جب جاب سرچ ٹریننگ لے رہا تھا تو آخری روز کلاس کے دو دو جوڑے بنائے گئے ۔ انہیں کہا گیا کہ بچپن سے لے کر اب تک ایک دوسرے کو کہانیاں سنائیں ۔ مجھے ساتھی خاتون نے بتایا کہ وہ آخر میں سرکاری نوکری سے استعفی دے کر آئی ہے ۔ میں بہت حیران ہوا ۔ اس سے سرکاری نوکری چھوڑنے کی وجہ دریافت کی ۔ وہ یوں گویائی ہوئی کہ میرا ضمیر وہاں مطمئن نہیں تھا ۔ وہاں تنخواہ کے مقابلے میں کام بہت کم تھا ۔ یہاں کی لیڈر شپ وقت کا ولی ہے ۔ ان کا کردار شفاف پانی کی طرح شفاف ہے ۔ یہاں سینٹ الیکشن میں ووٹ کی قیمت نہیں ہوتی ۔ یہاں ایک بار سینیٹر بننے والا تاحیات سینیٹر رہتا ہے ۔وہ خود اگر 65 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ نہ لے تو کوئی اسے ریٹائر ہونے پر مجبور نہیں کر سکتا ۔ اوورسیز تقریبا 30 ارب ڈالرز پاکستان بھیجتے ہیں ۔ انہیں پاکستان میں ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں ہے کجا وہ پاکستان میں سینیٹر بننے کا سوچ سکیں ۔ کنیڈا میں ایک مردان کی خاتون سلمی جان سینیٹر ہیں ۔ اس کے علاوہ کئی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبرز اور وزیر ہیں ۔ یہاں دو سال کرونا متاثرین کو مبلغ 2 ہزار ڈالرز یعنی 2 لاکھ 80 ہزار روپیہ پاکستانی اور 500 ڈالرز یعنی 70 ہزار پاکستانی فی بچہ گھر بیٹھے ملتے رہے ۔ کہتے ہیں کتے کی دم سو سال بھی سیدھی نہیں ہوتی ۔ ہوتی ہے کیوں نہیں ہوتی ۔ اس کے لیے انصاف اور برابری کا نظام چاہیے ۔ یہاں کنیڈا میں انصاف کا نظام قائم ہے ۔ ہم جیسے ٹیڑھے لوگوں کو سیدھا کر دیا ہے ۔ میں پاکستان میں گریڈ 19 کا افسر تھا ۔ جند ماہ پہلے پاکستان آیا ۔ ہمارے محکمے کا سیکریٹری میرا دوست تھا ۔ میں ان سے ملنے گیا ۔ اس نے مجھے سروس دوبار جائن کرنے کے ساتھ ساتھ گریڈ 20 میں پروموشن کا بھی وعدہ کیا ۔ میں نے معذرت کی ۔ میں مزید اس سسٹم کا حصہ بننا نہیں چاہتا تھا ۔ کنیڈا کی صاف ستھری زندگی نے یہ آفر قبول کرنے نہیں دی ۔ اب میرا مزاج بدل گیا تھا ۔ میں پاکستانی ماحول میں اپنے آپ کو ان فٹ سمجھ رہا تھا ۔ ایک بات بتا دوں کہ بیرون ملک مقیم ہر پاکستانی اپنی ماں دھرتی واپس آنا چاہتا ہے ۔ وہ اپنی جنم بھومی کی تعمیر وترقی میں بھرپور حصہ لینا چاہتا ہے ۔ لیکن یہاں کنیڈا والا عدل و انصاف نہیں ملتا ۔ مایوس ہو کر واپس چلا جاتا ہے ۔ وہ پاکستانی سسٹم میں نہ اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر پاتے ہیں اور نہ ہی معاشرے میں ۔ حتی کہ رشتہ داروں اور خاندان میں بھی ۔ یہ حسرت لیے ان کا وطن ایک دن انہیں یہاں بلاے گا وہ اس دنیا سے ہی رخصت ہو جاتے ہیں ۔ اور اب دیار غیر کے خوبصورت قبرستان میں انتظار کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ روز قیامت کا ۔ یہ کہانی ایک بڑے سرکاری افسر کی ہے ۔ وہ پاکستان میں گریڈ 19 کے افسر تھے ۔ سرکاری کالونی میں بہترین بنگلہ ملا ہوا تھا ۔ سرکاری گاڑی نوکر چاکر پٹرول اور زندگی کی دوسری آسائشوں کے ساتھ ۔ خود بھی ماشا اللہ زمیندار گھرانے سے تعلق تھا ۔ معاشی آسودگی حاصل تھی ۔ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق کے باوجود ذہنی سکون نہیں تھا جس کے لیے کنیڈا نقل مکانی کر گئے ۔ یہ فرد واحد کی کہانی نہیں ہے ۔ پچھلے تین چار دہائیوں سے ہر شعبہ زندگی کے ماہریں اپنی ماں دھرتی چھوڑنے پر مجبور ہوے ہیں ۔ یہاں کے انتہائی بدبودار گلے سڑے بے ایمان بے انصاف مالیاتی اور اخلاقی کرپشن سے بھرپور سسٹم میں کوئی شریف قابل محب وطن محنتی شخص کا جینا ناممکن ہو گیا ہے ۔اس لیے وہ کفر کے نظام کو ترجیح دیتے ہیں اور مرنے کے بعد وہاں کے خوبصورت قبرستان میں دفن ہونا پسند کرتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  پاک چین مشترکہ اعلامیہ