بڑے بے مروت ہیں یہ چنگچی والے

ایک تو یہ چنگچی رکشہ والوں نے ایسی قبیح حرکتیں شروع کی ہیں۔کہ ان کے خلاف بھی ایک ضرب غصب شروع کرنا چاہئے۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ اچھے خاصے شریف لوگوں کی پگڑیاں اچھالی جائیں۔خیر ویسے آج کل تو پگڑی سر پر رکھنے کا رواج ہی ختم ہوگیا ہے۔ صرف مولوی لوگ سر پر رکھتے ہیں۔اور کسی مولوی کی شان میں گستاخی کرنا ایسا خود کش حملہ ہے۔جس میں مولوی کا تو کچھ نہیں بگڑنا لیکن خود کش بے ادب کے چیتھڑے اڑنے کا امکان اچھا خاصا روشن ہوتا ہے۔کیونکہ پہلے تو مولوی بددعاوں سے کام چلاتے تھے۔اب تو ان کے قبضے میں ایک پورا ملک ہے ۔ جہاں کے جنگجو ہر نماز کے بعد شہادت کا درجہ پانے کی دعا کرتے ہیں۔ایسی قوم سے لڑنا بذات خود ایک خودکش حرکت ہے۔تبھی تو برطانیہ’ روس اور امریکہ سالہا سال تک ان مولویوں کی پگڑیوں سے سر ٹکرانے ٹکراتے آخر کار بھاگ گئے اور باقی کام پاکستان سے ٹھیکے پر کرانے کا پروگرام بنا رہے ہیں لیکن پاکستان بھی بڑا ” وہ” ہے اس قسم کے ٹھیکے کیلئے ہمیشہ ایڈوانس لے کر کام شروع کردیتا ہے۔لیکن پھر اس طریقے سے کام کرتا ہے کہ ٹھیکہ دینے والا ٹھیکہ اور ایڈوانس دی ہوئی رقم بھول کر بھاگ جاتا ہے۔امریکی صدر بش بھی ایک بھاری رقم دے کر طالبان کو سیدھا کرنے کا ٹھیکہ پاکستان کو دے چکے تھے ۔لیکن بعد میں انڈیا کا دورہ کرنے کے بعد ہمارا کام دیکھنے اسلام آباد آئے تو سر پکڑ لیا کہ طالبان کی صحت تو روز بروز بہتر ہو رہی ہے اور پاکستان امریکہ کی مدد سے امریکہ کو شکست دے رہا ہے۔ اس لئے اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے میں سکول کے بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیل کر بغیر کسی سے بات چیت کئے امریکہ واپس چلے گئے۔ لیکن ہم نے بہر حال بش بھائی کو راضی کر لیا کہ مزید خزانوں کے منہ ہمارے لئے کھول دے۔ تو کام کی کوالٹی بہتر ہو جائیگی۔ اور القاعدہ کے دہشت گردوں کو پکڑ پکڑ کر آپ کی جھولی میں ڈال دیں گے۔ بش اور اس کے پسماندگان ہمارے بہکائوے میں آگئے۔ اور ہم نے یہاں کے گلی کوچوں سے ہیروئن پینے والے نشیوں کو پکڑ پکڑ کر ان کے حوالے کرنا شروع کیا۔ان کو بہت بعد میں ہماری دونمبری کا پتہ چلا۔ اس طرح ہم پورے بیس سال تک امریکی بھینس کا دودھ پی پی کر اپنی صحت بناتے رہے۔اور انڈیا والے دانت پیستے رہے۔کہ یہ کمبخت کہاں کہاں سے اپنی کمائی کا ذریعہ نکال لیتے ہیں۔حالانکہ وہ ہمارے دیوالیہ ہونے کے منتظر تھے۔اب ان کو کیا پتہ کہ اللہ دینے پر آئے تو چھپڑ پھاڑ کر بھی دے سکتا ہے۔
پتہ نہیں بات کیسے کہیں اور چلی گئی حالانکہ بات چنگچی رکشہ والوں کی حرکتوں کی ہو رہی تھی۔تو میں عرض کر رہاتھا کہ چنگچی والے بالکل دہشت گردوں یا خوارج کی طرح بے قابو ہو گئے ہیں اور اب ان کا علاج کرنا ضروری ہو گیا ہے۔اب دیکھیں نا کل ہم پشاور کے ایک چوک میں کھڑے جوانوں والی سٹائل میں اللہ کی نرم و نازک مخلوق سے روحانی فیض حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک چنگچی رکشہ آ کے رکا ۔ہم نے غور سے چنگچی کی پشت پر لکھائی دیکھی ۔ تو ایک مشہور فلمی گانے کا بیڑا غرق کیا گیا تھا۔ اصل گانا یہ تھا کہ
بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے
کبھی دل لگانے کی کوشش نہ کر نا
لیکن چنگچی والے خارجی نے گانے کو اپنی مرضی سے تبدیل کرکے لکھا تھا۔
بڑے بے مروت ہیں یہ وردی والے
کبھی ڈی چوک جانے کی غلطی نہ کرنا
ہمارا خون کھول اٹھا کہ اس بد معاش کو یہ حق کس نے دیا کہ ہمارے محبوب سیاستدانوں کا مذاق اڑائے۔یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے اکثر سیاستدان اس قابل ہیں کہ ان کو صبح شام فی سبیل اللہ دو پشاوری جوتے مارے جائیں۔لیکن یہ حق چنگچی والے خوارج کو حاصل نہیں ۔یہ حق عوام کا ہے کہ دو چار کو چھوڑ کر باقی ہر سیاستدان کو کوڑے کے ڈرم کے اندر گرا کے اوپر ڈھکن رکھ دیںاور ایک دو ہفتے کیلئے وہاں رکھ کر صرف سوکھی روٹی دیں۔تاکہ سیاستدانوں کو اس ماحول سے واسطہ پڑے جس ماحول میں عوام زندگی گزار رہے ہیں۔
یورپ میں کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ یہی نیک عمل کیا جاتا ہے۔ہمیں اچھے اعمال میں یورپ کی پیروی کرنی چاہئے۔تاکہ پیشہ ور سیاستدان سیاست چھوڑ کر کوئی اور دھندا شروع کر دیں۔یا جینوئن سیاست کرتے ہوے مقتدرہ سے خفیہ معاہدے کرنے کی بجائے اصلی سیاستدانوں کے کیمپ میں آجائیں۔
جہاں تک ڈی چوک میں مظاہرہ کرنے کا تعلق ہے تو مظاہرے کا اعلان کرنے والے یاروں کا مقصد تو مظاہرے سے کئی دن پہلے ہی پورا ہو گیا تھا۔جب وفاقی حکومت نے دار الخلافہ اسلام آباد کو دار الکنٹینرز یعنی کنٹینرز کا شہر بنا کر پوری دنیا میں اپنی طاقت کا پول کھول دیا۔کہ یہ لوگ جمہوری اکھاڑوں کے پہلوان نہیں۔بلکہ محلاتی سازشوں کے پہلوان ہیں۔اور مقتدرہ کے دہاڑی دار مزدور ہیں۔
تو بات ہورہی تھی جنگچی والے خوارج کی۔کچھ دنوں پہلے پیاز ٹماٹر لینے بازار گیا تو ایک چنگچی رکشے کے پیچھے لکھا تھا۔
شادی کا ایک دن مقرر ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
اب شاعر بے چارے نے تو یہ کہا تھا کہ
موت کا ایک دن مقرر ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی۔
لیکن اس دہشت گرد خارجی نے شادی کو موت سے تشبیہ دے کر سارے شادی شدہ افراد کو شہدائے کرام میں شامل کیا تھا۔یہ ٹھیک ہے۔ کہ شادی کے بعد مرد حضرات ایک خونخوار جلاد کے ہتھیار کے نیچے زندگی کے دن پورے کرتے ہیں۔اور ان کے سروں کے اوپر زنانہ آلات حرب مثلا سبزی کاٹنے والی چھری ‘ ڈوئی’ بیلن وغیرہ ہر وقت لٹکتی رہتی ہیں۔لیکن اس کا مطلب یہ کبھی نہیں ہوتا کہ سو فیصد مرنے کے چانسز ہوتے ہیں۔دس پندرہ فیصد بچنے کے چانسز بھی ہوتے ہیں مثلا بندہ عاجز اپنی ٹرانسفر کسی دور والے شہر میں کرالے۔جو بیوی کے شہر سے سینکڑوں میل دور ہو اور وہاں غوری میزائل نہ پہنچ سکے۔ یا پھر تبلیغی دوروں پر مسلسل بیرون ملک جاتا رہے۔
اسی طرح کچھ دنوں پہلے ایک چنگچی رکشے پر لکھا ہوا دیکھا۔
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتی نہیں ہر ہاتھ ملانے والی
اب آپ خود انصاف کیجئے۔ کیا احمد فراز جیسے مشہور شاعر کے شعر کا بیڑا غرق ہوتے ہوے دیکھ کر ہمارے خون نے جوش نہیں مارنا تھا۔ہم غصے میں آگے بڑھے چنگچی ڈرائیور کو ایک چپیڑ مارنے کیلئے لیکن قریب جا کے اس کی وزیرستانی مونچھوں کو دیکھ کر فورا اپنا منہ دوستانہ اور لہجہ میٹھا کر لیااور پیار سے پوچھا کہ بھائی یہ آپ نے ہمارے کوہاٹی شاعر کے شعر کے ساتھ یہ حرکت کیوں کی ہے۔خان صاحب نے بھی جوابا اپنے پیلے دانت نکالے اور فرمانے لگے کہ مڑہ میں نے تو اپنی پڑوسن کی بیٹی اور اپنی محبوبہ فرزانہ کا نام لکھ دیا تھا۔لیکن دو تین فرزانہ نام کی سواریوں نے میرے رکشے میں بیٹھنے سے انکار کیااور دیسی گھی میں تلی ہوئی دوچار گالیاں بھی سلیس پشتو میں دے ماریں۔تو میں نے مجبورا فرزانہ کاٹ کے فراز لکھ لیا۔ویسے بھی احمد فراز بھائی اب فوت ہو چکے ہیں اور قبر میں اپنی آزادانہ اور عاشقانہ شاعری کا صلہ بھگت رہے ہونگے۔اس لئے ان کو فرق نہیں پڑتا۔اصل شعر یہ تھا کہ
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتی ہو فرزانہ
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
ایک اور چنگچی رکشے والے نے تو اپنی ڈرائیونگ سیٹ کے سامنے ہی خواتین سواریوں کو نظر آنے والے بورڈ پر لکھا تھا۔
آپ میں ہر ایک پیاری ہے
کون کون سی کنواری ہے۔
توبہ توبہ دن دیہاڑے اتنی کھلی دعوت نکاح کسی مسلمان مرد مومن نے آج تک نہیں دیا تھا۔یقینا یہ قیامت کی نشانیاں ہیں۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں کی سرپرست افغان حکومت