ویب ڈیسک: صحافیوں کی تنظیموں کی مشترکہ ایکشن کمیٹی نے وفاقی حکومت کی جانب سے پیکا ایکٹ کو مسترد کرتے ہوئے ایکٹ کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے ۔
پی ایف یو جے، اے پی این ایس، سی پی این ای، ایمینڈ اور پی بی اے پر مشتمل صحافی تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت کے بل کو مکمل طورپر مسترد کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پیکا ایکٹ میں ترامیم صحافی تنظیموں کی مشاورت کے بغیر کی جا رہی ہیں لہذا اس بل کو فورا واپس لیا جائے۔
قبل ازیں پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ اور سیکریٹری جنرل ارشد انصاری نے پیکا ایکٹ میں ترامیم کو غیر ضروری اور آئین کی روح کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ترامیم میڈیا، سوشل میڈیا اور صحافتی برادری کو دبانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔
بیان میں ترامیم کو پوری میڈیا انڈسٹری سے دھوکا قرار دیا گیا تھا اور پی ایف یو جے نے دعوی کیا تھا کہ یہ کسی کے کہنے پر کیا گیا ہے اور آزادی صحافت اور اظہار رائے کے آئینی حق کو ہر قیمت پر محفوظ رکھا جائے گا۔
کراچی پریس کلب نے بیان میں پیکا ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ صحافی تنظیموں سے مشاورت کے بغیر کی گئیں ترامیم کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
صدر کراچی پریس کلب فاضل جمیلی اور سیکریٹری سہیل افضل خان نے پیکا ایکٹ میں حالیہ ترامیم کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں آزادی اظہار کے لیے خطرہ قرار دیا اور کہا کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 19 ہر شہری کے آزادی اظہار کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار کو دبانے کے بجائے، حکومت کو مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ کو حقیقی وقت میں درست خبریں رپورٹ کرنے کے لیے بااختیار بنانا چاہیے اور اسی طرح سوشل میڈیا پر جعلی خبروں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
کراچی پریس کلب کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر اطلاعات نے یقین دہانی کرائی تھی کہ قانون منظورہونے سے قبل اس پر تمام اسٹیک ہولڈر ز سے مشاورت کی جائے گی لیکن اس کے برعکس حکومت نے جلد بازی میں ان قوانین کو منظور کروالیا ہے اور اس کا مسودہ صحافی تنظیموں کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جعلی خبروں کے حوالوں سے صحافی تنظیموں کو بھی تحفظات ہیں لیکن اس کے لیے قانون سازی میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا ہوگا۔
کراچی پریس کلب نے حکومت کوتجویزدی کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول میڈیا باڈیز اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے کسی بھی قانون کو متعارف کرانے یا نافذ کرنے سے پہلے مشاورت کرے اور اس "کالے قانون” کو فوری طور پر واپس لے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی پریس کلب پیکاایکٹ ترمیمی بل پر شدید تحفظات رکھتا ہے اور اس حوالے سے دیگر صحافی تنظیموں سے مشاورت کے بعد مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے پیکا ترمیمی ایکٹ میں ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی (ڈی آر پی اے) قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
