وفاق کے زیر انتظام سابق فاٹا کی ایجنسیوں کو اضلاع بنا کر صوبائی انتظام میں ضم کرنے کا فیصلہ ہی متنازعہ نہ تھا بلکہ اس کے حوالے سے جس جلدبازی کا مظاہرہ کیا گیاکہ اس مد میں ضروری فیصلے اور انتظامات کئے بغیر ہی اضلاع کو ضم کرنے کا اعلان کرکے وفاقی حکومت نے ہاتھ اٹھا لیااس فیصلے کے پس پردہ دبائو سے قطع نظر صوبائی حکومت نے بیورو کریسی کے مشورے کے باوجود ضم اضلاع کے این ایف سی ایوارڈ میں حصہ یقینی بنائے بغیر اس عمل کو قبول کرلیا جس کے بعد آج تک انتظامی معاملات سے لے کر مالیاتی معاملات تک اور ترقیاتی امور عوامی مسائل و سہولیات سبھی اپنی اپنی جگہ سوالیہ نشان چلے آرہے ہیں ایسے میں یہ عمل دو ملائوں میں مرغی حرام ہی کا رہا ایک جانب سیاسی طور پر خیبر پختونخوا اور وفاق میں بعد المشرقین اور دوسری جانب ایک نئی چال جس کے بعد یہ تعین کرنا مشکل ہو جائے گا کہ یہ صوبے ہی کا حصہ ہیں یا پھر وفاق نے ان کو دوبارہ اپنی سرپرستی میں لے لیا ہے بہرحال قانونی اور آئینی طور پر تو یہ صوبے ہی کا حصہ ہیں مگروفاقی حکومت نے تیز رفتار ترقیاتی پروگرام کے تحت فنڈز کے استعمال کا اختیار صوبائی حکومت سے لے کر وفاقی سطح پر قائم سٹیئرنگ کمیٹی کے ذریعے ترقیاتی فنڈز وفاقی اداروں کے ذریعے خرچ کریگی پلاننگ کمیشن وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق قبائلی اضلاع کے تیز رفتار ترقیاتی پروگرام کیلئے سٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے جس کی سربراہی ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کرینگے جبکہ ممبران میں گورنر خیبر پختونخوا ، ضم اضلاع کے چار ممبران قومی اسمبلی، ضم اضلاع کے دو ممبران صوبائی اسمبلی، سیکرٹری پلاننگ ڈویژن، سیکرٹری فنانس ڈویژن، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقی و منصوبہ بندی خیبر پختونخوا، چیف اکانومسٹ پلاننگ کمیشن، اور ایڈیشنل سیکرٹری پلاننگ ڈویژن شامل ہیں اعلامیہ کے مطابق 80فیصد ترقیاتی فنڈز مذکورہ کمیٹی کے ذریعے خرچ کئے جائیں گے کمیٹی ممبران ترقیاتی منصوبوں کی نشاندہی کریں گے اور ان منصوبوں کو وفاقی ادارے ہی مکمل کریں گے جبکہ20فیصد ترقیاتی فنڈز کو سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز کے تحت خرچ کیاجائے گا ۔مالیاتی اور ترقیاتی حوالے سے یہ نیا نظام آدھا تیتر آدھا بٹیر ہی ہیں کہلائے گا بلکہ یہ اختلافات میں اضافے کا باعث بھی ہو گا صوبے میں ویسے بھی گورنر اور وزیر اعلیٰ کی چپقلش رہتی ہے اب ایک طرح سے ”فاٹا” پھر سے گورنر کے پاس آگیا ہے انتظامی معاملات میں تبدیلی بنیادی وجہ نہیں اگر یہ نافع ہوں اور عوامی مسائل و مشکلات میں کمی لانے کے حوالے سے موثر ہوں تو اس کی مخالفت نہیں کی جاسکتی مگر یہاں برعکس صورتحال نوشتہ دیوار ہے جس سے بالاخر قبائلی اضلاع کے پہلے سے محروم عوام کے مزید متاثر ہونے کا خدشہ ہے بہتر ہو گا کہ اتفاق رائے سے کام کیا جائے اور تضادات سے گریز ہونا چاہئے اور جو بھی فیصلے ہوں وہ کسی سیاسی تناظر اور حکومتی کچھائو کا باعث نہ ہوں بلکہ اس کا مقصد عوامی مسائل کا حل اور ترقی ہو۔
