p613 35

مشرقیات

شہر بن حوشب سے روایت ہے کہ جب عمرو بن العاص کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمرو نے آپ سے عرض کیا کہ ابا جان! آپ یہ فرمایا کرتے تھے کہ کاش میں کسی عقلمند اور سمجھدار شخص سے ایسے وقت ملاقات کرتا جب اس کے سر پر موت کھڑی ہوتی تو وہ مجھے موت کی ان سختیوں کی خبر دیتا جسے وہ محسوس کر رہا ہو۔ اس وقت آپ ہی ایسے شخص ہیں جس پر نزع کا عالم ہے لہٰذا آپ مجھے یہ بتائیے کہ موت کس طرح آتی ہے؟ آپ نے فرمایا’ کیا بتائوں بیٹا! بخدا کہتا ہوں مجھے اس وقت یہ محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے آسمان و زمین بالکل ایک دوسرے سے مل گئے ہیں اور گویا میرا پہلو کسی تخت کے نیچے دبا ہوا ہے اور میں سوئی کے ناکے میں سانس لے رہا ہوں اور گویا ایک کانٹے دار شاخ میرے پیروں سے پیر تک کھینچی جا رہی ہے۔
اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے مرنے کا وقت جب قریب آیا اس کا محل چونکہ ایک نہر کے کنارے پرواقع تھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک دھوبی نہر پر کپڑے دھو رہا ہے۔ اسے دیکھ کر عبدالملک نے کہا کاش! میں بھی ایسا ہی ہوتا کہ روز کی مزدوری روز کمایا کرتا اور اس سے سے زندگی بسر کرتا اور یہ خلافت مجھے نہ ملی ہوتی۔ اس کے بعد خلیفہ کو بھی وہی حادثہ پیش آیا جو امیہ کو اس شعر کے پڑھنے سے پیش آیا تھا یعنی شعر پڑھتے ہی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
جب ابو حازم کو یہ اطلاع ملی تو انہوں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے حق تعالیٰ نے بادشاہوں اور شہنشاہوں کو بھی موت کے وقت اس حالت کی تمنا کرنے پر مجبور کردیا جس حالت میں ہم ہیں اور ہمیں اس حالت کی تمنا کرنے سے باز رکھا’ جس میں یہ بادشاہ ہیں۔” استیعاب” میں فارعہ بنت ابی ا لصلت ہمشیرہ امیہ کے حالات میں لکھا ہے کہ فتح طائف کے بعد وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ یہ ایک ہوشیار’ پاکدامن اور صاحب جمال عورت تھی۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ اچھا بتا! تجھے اپنے بھائی کے کچھ اشعار یاد ہیں تو اس نے اپنے بھائی کے یہ اشعار سنائے:ترجمہ: میں اپنے نفس کو جینے کی رغبت نہیں دلاتا اور اس سے کہتا ہوں کہ اگر تو مدتوں جیتا رہے تب بھی موت سے تجھے چارہ کار نہیں۔ جو شخص اپنی موت سے بھاگتا ہے اسے ایک نہ ایک دن موت سے اچانک سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ شخص راضی برضا قابل رشک موت مرنا نہیں چاہتا وہ بڑھاپے میں یقینا موت کا شکار ہو جائے گا۔ موت کی شراب کا جام ہر شخص کے لئے تیار ہے۔ اور کہا کہ یہی شعر پڑھنے کے بعد میرا بھائی مجھے داغ مفارقت دے گیا۔
حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تیرے بھائی کی مثال اس شخص کی ہے جس کے پاس حق تعالیٰ نے اپنی نشانیاں بھیجیں مگر اس نے ان سے رو گردانی کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور اس کاشمار گمراہوں میں ہونے لگا۔
(حیاة الحیوان’ جلد دوم)

مزید پڑھیں:  ملتان ہے کل جہان