پیکا ترمیمی بل پر ہنگامہ آرائی

دنیا کے بیشتر ممالک میں جہاں جمہوریت کی جڑیں زیادہ مضبوط ہونے پر ہمیشہ سوال ا ٹھتے ہیں ، وہاں کی حکومتیں اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے کے لئے ایسے قوانین لاتی ہی جن پر اعتراضات کی گنجائش موجود ہوتی ہے ، اس ضمن میں کل کی حکمران اور آج کے حزب اختلاف کے اراکین کا رویہ بھی عجیب ہوتا ہے یعنی اپنے اپنے دور میں یہ سب جماعتیں ، تنقید کو برداشت نہ کرتے ہوئے مخالفین کا منہ بند کرنے کے لئے قوانین لا کر خود کو”محفوظ” رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتی ہیں مگر جسے یہ یہ اقتدار سے باہر ہو کر حزب اختلاف کی بنچوں پر جا بیٹھتی ہیں تو ان کو اپنی غلطیوں کا احساس ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے قوانین کے خلاف آواز اٹھانا ان کی ترجیح بن جاتی ہے ، دوسری جانب ریگولر میڈیا کے لئے تو قوانین بنا کر ان پر عمل درآمد کسی بھی حکومت کے لئے کوئی مشکل امر نہیں ہوتا کہ سرکاری اشتہارات اور دیگر متعلقہ اقدامات کی وجہ سے میڈیا کو کسی نہ کسی حد تک کنٹرول کرنا آسان ہوتا ہے ، بلکہ ماضی میں تو میڈیا کا گلا گھونٹنے کے لئے سرکاری اشتہارات ہی سب سے بڑا ہتھیار ہوتا تھا اور اکثر ”زبان دراز” میڈیا (اخبارات ، چینلز وغیرہ) پر اسی تادیبی ہتھیار سے کامیاب کارروائیاں ملکی تاریخ کا سیاہ باب رہی ہیں تاہم جب سے سوشل میڈیا آیا ہے اس حوالے سے کوئی مربوط حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے یہ شعبہ مبینہ طور پر مادر پدر آزاد ہو کر حکومت سے لے کر عام لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے میں آزادانہ کردارکا حامل رہا ہے حکومت کی جانب سے میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا پر گزشتہ چند برسوں سے اس نوع کی مہم کو روکنے اور سوشل میڈیا کو ایک ضابطہ اخلاق میں لانے کے لئے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں پیکا کا ترمیمی بل پیش کرنے کے موقع پر جو ہنگامہ آرائی اور غل غپاڑہ دیکھنے کو ملا وہ کس حد تک قابل قبول اور درست ہے اس پر یقینا غیر جانبدارانہ انداز میں بات بہت ضروری ہے اس ضمن میں پیکا ترمیمی بل قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر رانا تنویر نے پیش کیا جبکہ اپوزیشن جماعتوں اور صحافیوں نے اس بل کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے ایوان زیریں سے واک آئوٹ کیا ، تاہم حکومتی بنچوں نے بل کی منظوری دیدی بل کے حوالے سے جو نکات سامنے آئے ہیں ان کے مطابق پروٹیکشن وریگولیٹری اتھارتی سوشل میڈیا پرجھوٹی خبریں پھیلانے والے شخص کو تین سال قید یا 20 لاکھ روپے جرمانہ عاید کر سکے گی اس مقصد کے لئے سوشل میڈیا ٹریبونل قائم ہو گا جو ایسے تمام معاملات کا جائزہ لے کر فیصلہ ے گا جے یو آئی نے بل کی مخالفت کی ، پی ٹی آئی کے واک آئوٹ کے باعث ایوان نے کثرت رائے سے بل کی منظوری دی صحافیوں اور ان کی تنظیموں نے بل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا، ادھر وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہ ملک میں اظہار رائے کی آزادی ہے اور حکومت میڈیا کی تعمیری تنقید کا خیر مقدم کرتی ہے وفد کے ساتھ مزید گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت اور میڈیا کا باہمی اعتماد کا رشتہ ہے ، حکومتی پالیسیوں پر میڈیا کی تعمیری تنقید کا حکومت خیر مقدم کرتی ہے ، میڈیا ملکی ترقی اور گورننس کی بہتری میں اپنا مثبت کردار ادا کرتا رہے گا حکومت میڈیا کے ریاست کا چوتھا ستون ہونے پر یقین رکھتی ہے انہوں نے کہا کہ اڑان پاکستان مقامی طور پر تیار کردہ ملکی ترقی کا منصوبہ ہے اس منصوبے کو میڈیا اور تمام سٹیک ہولڈرز کے تعاون سے کامیاب بنائیں گے ۔ دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے پیکاایکٹ میں ترمیم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوشل میڈیا کے حوالے سے ہے اور اس کی وجہ سے ورکنگ جرنلسٹس کو تحفظ ملے گا، تمام صحافیوں کی تنظیمیں آئیں اور اس پر بات کریں ادھر مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا نے پیکا ایکٹ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیا کے لئے کھودی گئی قبر میں حکومت خود دفن ہو گی ، جہاں تک وفاقی وزیر عطاء تارڑ کے صحافی تنظیموں کوپیکا ترمیمی ایکٹ پر گفت و شنید کی دعوت کا تعلق ہے تو جب ایک دفعہ ایکٹ منظو ر کرلیاگیا ہے تو اس کے بعد اس پر بات کرنے کے کیا معنی یہ بات چیت اگر ایکٹ کو قومی اسمبلی میں ٹیبل کرنے سے پہلے کر لی جاتی اور صحافی تنظیموں کو مشاورت کرکے اعتماد میں لیا جاتا تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہوتے تاہم صحافی تنظیموں کو اس موقع کوضائع نہیں کرنا چاہئے اور گفت وشنید کے ذریعے بل میں موجود اگر کچھ سقم ہوں تو ان کی نشاندہی ضرور کرنی چاہئے تاکہ حکومت کے پاس ان نکات پر غور کرنے کی اپنی ہی پیشکش سے پسپائی اختیار کرنے کا موقع نہ ملے تاہم ایک اہم نقطہ یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ حکومت نے جس مقصد کے لئے یہ بل منظور کروایاہے اس میں ملک کے اندر تو سوشل میڈیا ٹرولنگ پر بڑی حد تک شاید قابو پایا جاسکے لیکن جونامناسب اور توہین آمیز ٹرولنگ بیرون ملک مقیم ایکٹیوٹس کر رہے ہیں ان پر قابو کیسے پایا جا سکے گا اور ایسے عناصر کے خلاف کیونکر کارروائی ممکن ہو سکے گی ؟ بہرحال حکومت کو ان تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی مناسب فیصلہ کرنا پڑے گا ، خصوصاً صحافتی حلقوں کو اعتماد میں لے کر کوئی قابل عمل راہ اختیار کرنے کے بارے میں ضرور سوچنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں:  رمضان کی آمد سے قبل ہی مہنگائی