3 111

اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی میں یہ دو ٹوک اعلان کیا ہے کہ پاکستان عرب ممالک کے دباؤ کے باوجود اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ پاکستان مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کا حامی ہے۔ وزیرخارجہ نے یہ وضاحت اپوزیشن ارکان کے استفسار پر کی ہے۔ اسلام آباد کی راہداریوں میں وقفے وقفے سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی افواہیں گردش کرنا اب معمول ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حامی لابی موجود ہے مگر عوامی ردعمل کے خوف سے یہ لابی اکثر خاموش اور خوابیدہ رہتی ہے مگر کبھی کبھار یہ جاگ پڑتی ہے اور ”اگر مگر” کیساتھ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کرتی ہے۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں مولوی ڈیوڈ نامی ایک مجہول الحواس شخص ایک خیمہ سجا کر پاکستانی پاسپورٹ سے اسرائیل کے سفر کی ممانعت کی مہر ہٹانے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ ایک نوجوان نے موقع پر جاکر مولوی ڈیوڈ کا یہ خیمہ اکھاڑ پھینکا تھا۔ یہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے کسی دینی مدرسے کا فارغ التحصیل ہے جس کا دعویٰ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خواب میں آکر اسے نام بدلنے کی ہدایت کی۔ اس طرح کے کئی کردار پاکستانی اداروں میں چھپے بیٹھے ہیں۔ فلسطینیوں کا المیہ یہ ہوا کہ ان کے عرب ہمسائے اور مسئلے کے فریق اور شریک ممالک بھی اسرائیل اور امریکہ کے آگے ڈھیر ہوتے چلے گئے ہیں۔ اس کا آغاز اسرائیلی صدر بیگن اور مصری صدر انورالسادات کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت عرب دنیا کا سب سے مؤثر ملک مصر فلسطینیوں کی حمایت سے ہاتھ کھینچ بیٹھا تھا۔ اس معاہدے کے ردعمل میں مصر کے ناراض نوجوانوں نے انورالسادات کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے ایک ایک کرکے عرب ملکوں کو فلسطینیوں کی حمایت سے دستکش اور دست بردار کیا جاتا رہا۔ اب عالم یہ ہے کہ کوئی بھی عرب ملک اعلانیہ طور پر فلسطینی کاز کا حامی نہیں۔ زبانی حد تک تمام ممالک فلسطینیوں کے مطالبات کی حمایت کرتے ہیں مگر عملی میدان میں ان کی کارکردگی نہ صرف یہ کہ صفر ہے بلکہ وہ اسرائیل کیساتھ کھلے یا ڈھکے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط کر رہے ہیں۔ اسرائیل عرب دنیا میں حاصل ہونے والی اس سپیس کو اعلان بالفوز کے تحت ”گریٹر اسرائیل” کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان مسلمان دنیا کا واحد ملک ہے جو اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی دیرینہ پالیسی پر قائم ہے۔ فلسطینیوں کے کاز کے حامی بڑے مسلمان راہنما اس راہ سے ہٹ گئے۔ بہت سے ملک اپنا مؤقف تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے مگر پاکستان اپنے اس متعین راستے سے ہٹا نہیں جس کا تعین بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کیا تھا۔ پاکستان کی مشکل یہ ہے کہ جن حالات کا سامنا فلسطینی عوام کر رہے ہیں بالکل وہی حالات کشمیری عوام کو درپیش ہیں، دونوں کا کیس بھی ایک جیسا ہے۔ اسرائیل اور بھارت جیسے کرداروں میں بھی کوئی عملی اور نظری فرق نہیں، اسرائیل اور بھارت کا ایجنڈا بھی ایک ہے۔ اسرائیل ”گریٹر اسرائیل” تو بھارت ”مہابھارت” کے تصورات کے تعاقب میں پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔ امریکہ سمیت مغربی طاقتیں ہمیشہ سے اس کوشش میں رہی ہیں کہ پاکستان کے حکمران طبقات میں ایک ”انورالسادات” پیدا کیا جائے جو کشمیری عوام کی حمایت سے دستکش ہو کر انہیں بھارت کے رحم وکرم پر چھوڑ دے۔ پاکستان کے پیچھے ہٹتے ہی کشمیری عوام بھارت کے رحم وکرم پر ہوں گے۔ امریکہ نے گزشتہ بیس برس کے دوران پیس پروسیس کے نام پر جو کھیل شروع کیا تھا اس میں پاکستان میں انورالسادات کی تلاش کا تصور مرکزی حیثیت کا حامل تھا۔ اسرائیل کو تسلیم کرتے ہی کشمیر پر پاکستان کا کیس اپنی اخلاقی بنیاد کھو دیتا ہے اور اسے کشمیر پر بھارت کے قبضے کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے پاکستان کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاملے کے کئی جہات ہیں۔ پاکستان صرف فلسطینی کاز کی حمایت ہی نہیں اپنی اصولی بنیاد کو جوازیت دینے کیلئے بھی اس کاز کی حمایت کر رہا ہے۔ پاکستان کی حکومتیں ہمیشہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاملے پر دباؤ میں رہتی ہیں مگر یہاں اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کا خودکار نظام بھی کام کرتا ہے اور عوامی دباؤ بھی ایک حقیقت کے طور پر موجود ہوتا ہے۔ اس لئے کوئی بھی حکومت اس راہ پر پیش قدمی نہیں کر سکتی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں تو یوں لگ رہا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی منزل اب صرف چند قدم کی دوری پر ہے۔ یہودیوں کے مذہبی اور روحانی راہنما جنرل مشرف کی درازیٔ عمر کیلئے دعائیں کرنے لگے تھے۔ اسرائیل اور پاکستان کے مشترکات پر تحقیق ہونے لگی تھی، دونوں کی قربتوں کے فوائد کی فہرستیں مرتب ہو نے لگی تھیں۔ موجودہ حکومت بھی اس دباؤ سے آزاد نہیں رہی ہوگی اچھا ہوا کہ شاہ محمود قریشی نے دوٹوک انداز میں وضاحت کر دی۔ عرب دنیا کی بے بسی اس حوالے سے دیدنی ہے، فلسطینیوں کے کاز کے حامی بڑے عرب لیڈر ایک ایک کرکے نہایت عبرتناک طریقے سے منظر سے ہٹائے جا چکے ہیں۔ جن عرب ملکوں کے حکمرانوں کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا تھا اب ان ملکوں پر ایسے سرکٹے اور بے نام ونسب حکمران مسلط کر دئیے گئے ہیں جن کا نام بھی بتانے والا کوئی نہیں۔ صدام اور قذافی کے ملکوں کے حکمران کون ہیں؟ اس کا جواب جاننے کیلئے گوگل کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس ذلت کا شکار عرب دنیا سے اسرائیل کی مزاحمت کی توقع تو درکنار بلکہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرانے کی مہم کے باراتی ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے عرب ملکوں کے جس دباؤ کی جانب اشارہ کیا ہے اس کی ساری حقیقت یہی ہے کہ عرب دنیا اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کیخلاف نہیں بلکہ اس کی حمایت میں اپنا اثر رسوخ اور توانائی استعمال کر رہی ہے۔ فلسطین میں طاقت کو زمینی حقیقت قرار دیکر قبولیت بخشنے والا پاکستان کشمیر میں اس اصول کی مخالفت کیسے کر سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر