ڈونلڈ ٹرمپ اور افغانستان

ٹرمپ نے حلف اٹھا لیا لیکن حلف لینے سے پہلے ہی ٹرمپ نے دنیا کو ہلا کررکھ دیا ہے ، ان کے ایک بیان پر کینیڈا کے وزیر اعظم نے استعفیٰ دے دیا ۔ ان کے خوف سے اسرائیل حماس جنگی بندی عمل میں آگئی ، ان کے ایک بیان نے یورپ میں کھلبلی مچا دی کہ وہ گرین لینڈ کو امریکہ کے قبضے میں لے لیں گے ۔ لیکن ان کا حالیہ ایک بیان اس خطے کے حوالے سے بہت ہی واضح سامنے آیا ہے کہ اگر افغانستان امریکہ کا اسلحہ اور جنگی سامان واپس نہیں کرتا تو اس کی امداد مکمل بند کردی جائے گی ۔ امریکہ بائیڈن کے دور میں دیگر امدادی سلسلوں کے علاوہ روازنہ کی بنیاد پر بیس ملین ڈالرز افغانستان کو دے رہا ہے اور ابتک طالبان کی عبوری حکومت کو 23 ارب امریکی ڈالرز دے چکا ہے ۔ یہ وہ رقم ہے جو اعلانیہ دی جارہی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی امریکہ افغانستان کو مختلف مدوں میں پیسے دے رہا ہے ۔ افغانستان جیسی معیشت کے لیے یہ پیسے بہت زیادہ ہیں ۔ جبکہ امریکہ کی افغانستان سے واپسی کے بعد افغانستان کی معدنیات اور منشیات کے پیسے جو مختلف امریکن ڈیلروں کے ہاتھوں ہوتے رہے ہیں اور ہورہے ہیں ان سے بھی افغانستان کی موجودہ عارضی حکومت کو اربوں ڈالرز مل رہے ہیں ۔ اس لیے آپ کو افغانستان میں امن نظر آرہا ہے ۔ امریکہ گزشتہ دو دہائیوں میں افغانستان پر دو کھرب سے زیادہ امریکی ڈالرز خرچ کرچکا ہے ۔ٹرمپ کا اس مرتبہ امریکہ کو جس طرح چلانے کا پلان ہے اسے دیکھ کر یہ بات تو واضح ہے کہ وہ فوجی اور اقتصادی امداد کسی بھی دوسرے ملک کونہیں دے گا ۔ اگر افغانستان کو روزانہ کی بنیاد پر ڈالرز نہیں ملتے اور امریکہ ان سے اسلحہ اور جنگی سامان کے مطالبہ پر ڈٹ جاتا ہے تو اس سے اس خطے میں حالات بہت زیادہ خراب ہوجائیں گے ۔ ایسے میں منشیات اور معدنیات کے وہ سرمایہ کار جو طالبان کے غلزئی گروپ کو پیسے دے رہے ہیں وہ پیچھے ہٹ جائیں گے اور اس کے نتیجے میں دیگر مقامی سمگلرز اور سردار اور مختلف ناموں سے مصروف طالبان غلزئی گروپ سے حصہ مانگنے کے لیے مسلح میدان میں آجائیں گے۔ جس کا
لازمی نتیجہ ان کے مابین ٹکراؤ کی صورت میں سامنے آئے گا ۔ ایسے میں وہ چینی اور بھارتی سرمایہ کار جنہوں نے غلزئی گروپ کے ساتھ مختلف سودے کیے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر افغانستان کے مختلف علاقوں میں کام کررہے ہیں عدم تحفظ کا شکار ہوں گے ۔ اور یہاں سے ایک اور خانہ جنگی کا آغاز افغانستان میں شروع ہوگا جس کے لیے شمالی اتحاد اور دیگر گروہ تین برس سے مسلسل تیاری کررہے ہیں ۔ یہ گروہ روس اور دیگر ممالک میں بیٹھ کر خود کو منظم کررہے ہیں اور ان کی کئی ایک ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں ۔ ایسے میں افغان طالبان نے پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات خراب کیے ہیں اور مسلسل پاکستانی مفادات کو نقصان پہنچانے کی عملی کوششیں کررہے ہیں وہ اس دباؤ کو برداشت نہیں کرسکیں گے اور مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوجائیں گے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ افغانستان میں ایک ہی گروہ کے تمام وسائل پر قبضہ ہے ۔ طالبان کے افغانستان میںدرجنوں گروپس ہیں جن کو مختلف کمانڈر لیڈ کررہے ہیں ۔ لیکن اس وقت افغانستان کے سیاہ و سفید کا مالک ایک ہی گروپ ہے جس نے تمام ان کاموں اور جگہوں پر قبضہ کیا ہوا ہے جہاں سے آمدنی ہوتی ہے ۔ باقی گروہوں کو چھوٹے موٹے کام دے کر اور معمولی سی اجرت دیکر ان کو مصروف رکھا گیا ہے ۔ چونکہ چین ، بھارت اور دیگر طاقتیں اسی ایک گروہ سے ہی تعلقات بنانے اور معاملات سیٹ کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور امریکہ بھی براہ راست اسی گروہ کو ساری فنڈنگ دے رہا ہے اس لیے باقی سب ہمت نہیں کررہے کہ وہ ان کے خلاف کوئی بڑی کاروائی کرسکیں اور انہیں پریشان کرسکیں اس لیے کہ افغانستان میں ساری جنگ ڈالروں کے زور پر لڑی جاتی ہے ۔ اور اس وقت ڈالرز ایک دو
ہی گروہوں کے پاس ہیں اور مسلسل آرہے ہیں ۔ ٹرمپ کے حالیہ بیان کے بعد افغانستان میں طالبان کے غلزئی اور حقانی گروہ یقیناً پریشان ہوںگے اور دیگر گروہ مستقبل کے خطرے کے پیش نظر نئے آقاؤں اور سرپرستوں کی تلاش میں ہوں گے ۔ افغانستان کے حوالے سے ٹرمپ کا بیان اس لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے کہ افغانستان میں غیر متحرک گروہوں کو اس بیان سے اپنی اہمیت کیش کرنے اور منظر عام پر آنے کا موقع ملے گا اور اسلحہ پر کنٹرول کے شخصی اور گروہی کوششوں کا آغاز ہوگا ۔ جس میں ہر دن کے ساتھ شدت آئے گی اور ایسے میں پنج شیر اور کئی دیگر علاقوں کا کنٹرول سنبھالنا طالبان کے لیے عملاً ممکن نہیں رہے گا ۔ اور جس سے طالبان کے کنٹرول سے اگر پنج شیر اور چند دیگر علاقہ نکل جاتے ہیں تو افغان جنگجوں کو ان علاقوں میں پاؤں رکھنے کی جگہ مل جائے گی اور پھر وہ ان علاقوں سے گوریلا جنگ کا آغاز کردیں گے ۔ اس بار طالبان کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں پاکستان کی سپورٹ حاصل نہیں ہوگی اور وہ پاکستان کی سرحدوں سے امداد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے ۔ امریکہ اپنے اسلحہ کے لیے صرف امداد ہی بند نہیں کرے گا بلکہ افغانستان کے اندر ان علاقوں میں جہاں چینی اور دیگر سرمایہ کاروں کی سرگرمیاں ہیں وہاں پروکسی وار شروع کروا دے گا جس سے افغان طالبان اس وقت نبرد آزما ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ اس لیے کہ طالبان کو نورستان ، پنچ شیر ، بدخشان اور کئی دیگر صوبوں میں وہ کنٹرول حاصل نہیں ہے جو اسے افغانستا ن کے دیگر علاقوں میں ہے ۔ شمالی اتحاد کے ہزاروں جنگجو اب بھی تاجکستان ، ایران اور اطراف میں چھپے بیٹھے ہیں ان کی واپسی سے شمالی
افغانستان کا منظر نامہ بد ل جائے گا ۔ ایسے میں اگر ان گروہوں کو امریکہ کی حمایت حاصل ہوگئی تو یہ ایک اور بڑے اور طویل خانہ جنگی کا سبب بنے گا ۔ افغانستان کی جنگ امریکہ نے ستر کی دہائی کے آخر میں ڈالروں سے شروع کی تھی اور اس کو مسلسل ڈالروں کی مددسے جاری و ساری رکھا اور اس جنگ کی بنیاد پر سرد جنگ کا خاتمہ کیا اور پھر خود بیس برس سے زیادہ افغانستان میں رہ کر ڈالروں کی مدد سے اس خطے کو کنٹرول میں رکھا ۔ افغانستان سے جاتے ہوئے اپنا اسلحہ اور
جنگی سامان طالبا ن کے حوالے کیا اور پھر مسلسل تین برسوں سے افغانستان کو روزانہ کی بنیاد پر ڈالرز دے کر اسے مصروف رکھا ۔ اب ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی اس تسلسل کے خاتمے کا اعلان کیا ہے ۔ اس اعلان پر عمل درآمد سے ہی افغانستان میں حالات بدل جائیں گے ۔ اس لیے کہ افغانستان کی جنگ ڈالروں کے بغیر ایک دن بھی نہیں چل سکتی ۔ کسی زمانے میں یہ ڈالرز پاکستان میں بھی چلتے تھے تو ان کے زور پر یہاں مختلف جماعتیں صبح شام جہادی پیدا کرتے تھے ۔ جونہی ڈالروں کا سلسلہ بند ہوا وہ ساری جماعتیں جہاد کو ایسے بھول گئیں جیسے انہوں نے کبھی اس کا ذکر بھی نہیں کیا ۔ ان جماعتوں کی سیاست ختم ہوگئی ۔ ان کے ٹھاٹ باٹ ختم ہوگئے ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ بھی دیگر جماعتوں کی طرح منت سماجت کرکے جلسے کرنے لگے اور انہیں کسی نے بھی انتخابات میں ووٹ نہیں دیا ۔ ٹرمپ کا دوسرا بیان ابھی آئے گا جو افغانستان کے امریکہ میں لوگوں کے بارے میں ہوگا ۔ ٹرمپ دیگر امریکی باشندوں کی طرح ان لوگوں کو امریکہ میں بسانے کا حامی نہیں ہے ۔ اگر وہ اپنے اس عہد پر قائم رہتے ہیں کہ ان لوگوں کو ان کے ملک واپس جانا چاہئیے تو اس سے بھی افغانستانیوں کی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا ۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ ٹرمپ کس دن سے افغانستان کی عبوری طالبان حکومت پر روزانہ کے ڈالرز بند کرتا ہے۔ جس دن سے ٹرمپ نے اپنے دھمکی پر عمل شروع کردیا اس دن کے ایک ہفتے کے اندر اندر افغانستان میں نئی جنگی تقسیم واضح ہوجائے گی ۔ اگر اس دفعہ پاکستان اس آگ میں کودنے سے خود کو بچا گیا تو یہ پاکستان کے معاشی اور عملی ترقی کا نقطہ آغاز ہوگا ۔

مزید پڑھیں:  قومی ڈائیلاگ کی ضرورت اور اہمیت