ویب ڈیسک: جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے صوبے میں امن ہے نہ حکومت، بلکہ حکومت اسٹیبلشمنٹ چلا رہی ہے، ہر سو بدامنی کا ہی راج ہے، پہلے دن سے قبائیلی اضلاع کے انضمام کے خلاف تھا، اب بھی کہہ رہا ہوں کہ انضمام کا فیصلہ غلط تھا، ۔
انہوں نے کہا ہے کہ دو دہائیوں سے قبائلی علاقوں میں امن ختم ہو گیا ہے، ہمارے صوبے میں امن ہے نہ حکومت، جہاں امن تھا آج وہاں بدامنی ہے، بلکہ اب تو سیٹل علاقوں میں بھی بدامنی ہے، حکومتی اور ریاستی لوگوں سے ان مشران کی بات چیت ہوتی رہتی ہے، لیکن ہم پالیسیوں کی بات کرتے ہیں۔
قائد جمیعت نے کہا کہ 2010 سے دیکھ رہا ہوں کہ آپریشنوں سے کوئی حل نہیں نکالا جا سکا، جرگہ مشران کا حال دیکھ کر دکھ ہوتا ہے، ان قبائلی عمائدین کی آواز کو سنا جائے، ان کا کہنا تھا کہ ہم عنقریب ایک اور جرگہ بلا رہے ہیں جو حکومتی اداروں سے بات چیت کرے گا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں نے اپنی تمام تر توانائی قبائلی عوام کے لئے صرف کی ہیں، آج مشران حکومتی اداروں سے شکوہ کر رہے ہیں، دوسری طرف دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اسمبلیوں میں عوام کی نمائندگی نہیں ہے، جبکہ حکومت اسٹیبلشمنٹ چلا رہی ہے۔
سرحدی تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کیلئے ضروری ہیں، حکومت کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی، قبائیلی اضلاع کے انضمام کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میرا پہلے دن سے موقف رہا ہے کہ ہمارا انضمام کا فیصلہ غلط تھا، 9 سال ہوگئے ہیں قبائل کو حق نہیں ملا ہے۔
ڈی آئی خان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ریاست کا کام ہے کہ علاقے میں امن وامان بحال کرے، لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ امن کے حوالے سے حکومت بتائے کہ ان کا ایجنڈا کیا ہے، میں پریشان ہوں کہ کہیں خطے میں جغرافیائی تبدیلی تو نہیں لائی جارہی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ طاقت استعمال کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ اس سے دہشت گردی بڑہتی ہے، عملا ہمارے صوبے کو بدامنی کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔
جے یو آئی ف کے سربراہ نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم پی ٹی آئی کے ووٹ سے پاس ہوئی تھی۔
