وزیر اعلیٰ خیبرپختونخواعلی امین گنڈاپور کے عوامی ایجنڈا کے تحت کمشنر پشاورڈویژن کی زیر نگرانی شہربھرمیںگداگروں کے خلاف جاری آپریشن کے دوران گداگروں کو استعمال کرنے والے 6 ٹھیکیداروں کی گرفتاری سنجیدہ قدم ہے اطلاعات کے مطابق باقی 18 ٹھیکیداروں کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیںصوبے میں گداگری کو ٹھیکہ پر بھی دیا جانا تھا جس کے خلاف اب باقاعدہ آپریشن کی ضرورت ناگزیر بتائی گئی ہے گداگروں کی تعداد بھی ہوشرباء ہے اطلاعات کے مطابق آپریشن کے دوران تحویل میںلیے گئے گداگروں کی تعداد 300 سے تجاوز کر گئی ہے، گداگروںمیںزیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ تحویل میں لیے گئے گداگروں نے انکشاف کیا کہ کینٹ کے علاقہ میںپشاور کلب چوک اور پیر زکوڑی پل چوک ان کے سب سے زیادہ کمائی والے مراکز ہیں،اوسطاً ایک گداگر 12 ہزار روپے ٹھیکدار کو روزانہ دینے کا پابند ہوتاہے، جبکہ یونیورسٹی روڈ، فیز تھری چوک، گھڑی قمر دین پل، ڈبگری گارڈنز، چوک یادگار، پیپل منڈی، اندر شہر بازار، قصہ خوانی، خیبر بازار، شعبہ بازار اور پشاور کینٹ بازار اور کارخانوں مارکیٹ بھی زیادہ کمانے والے مقامات ہیں ۔امر واقع یہ ہے کہ گداگری کے خلاف مہم کی نوبت اس لئے نہیں آنی چاہئے تھی کہ یہ کبھی کبھار فیصلہ کرکے عملدرآمد یا پھر وزیر اعلیٰ وچیف سیکرٹری اور کمشنر کی مرضی ومنشاء کا کام نہیں بلکہ انسداد گداگری صوبائی حکومت کی بالعموم اور متعلقہ محکمموں کی بالخصوص ذمہ داری ہے جو محولہ صورتحال بیان ہوئی ہے اس کے تناظرمیں انسداد گداگری ایکٹ پر عملدرآمد تو درکنار گداگری کرانے والے ٹھیکیداروںاور پیشہ ور گداگروں سے سرکاری حکام کی ملی بھگت واضح ہے شہر میں جہاں علاقہ درعلاقہ تقسیم کرکے ٹھیکے پر اٹھانے کا ”سرکاری کام” ہواور فی گداگر خطیر رقم ٹھیکیدار کو کما کر ادائیگی کرتا ہو وہاں اس میں متعلقہ تھانہ سے لے کر سوشل ویلفیئراور دیگر متعلقہ بالواسطہ محکموں کے حکام کو باقاعدگی کے ساتھ ادائیگی اور ”ٹھیکہ لائسنس کے ساتھ ساتھ رینیو کرنے کی بھی فیس” سال بہ سال اضافہ کے ساتھ وصول و ادائیگی بعید نہیں ایک ایسے وقت جب عوام کو خود مہنگائی کے مارے دو وقت کی روٹی بمشکل مل رہی ہو وہاں پیشہ ور گداگروں کو پہچاننے کی غلطی کرکے ان کو بھیک دینا شہریوںکی سخاوت تو ظاہر کرتا ہے مگر مستحق اور حقیقی ضرورت مندوں کی اس سے حق تلفی ہی نہیں ایثار و قربانی کامظاہرہ بھی مشکوک بننے کا امکان ہے اسی طرح کی تفصیلی صورتحال سامنے آنے کے بعداب شہریوں کی ضرورت مندوں اور پیشہ وروں میں تفریق نہ ہونے کے باعث حقیقی ضرورت مندوں کی دستگیری کا عمل بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے جس سے قطع نظر بہر حال اب جبکہ حکومت کوٹھیکیداروں کی فہرست اور علاقے معلوم ہی ہو گئے ہیں تو کم ازکم آئندہ کوئی پیشہ ور گداگر نظر نہ آئے اور ٹھیکیداروں کو تو باقاعدہ باری جرمانہ کیا جانا چاہئے ۔
