بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

اس کالم کے شائع ہونے تک تو خدا جانے ان مذاکرات پر کیا بیتی ہے جو کبھی شروع ہوتے ہیں اور کبھی یکایک بند ہو جاتے ہیں یا بانی پی ٹی آئی کے حکم پر بند کر دیئے جاتے ہیں کیونکہ ابھی ان کی بندش والے بیان کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایک بار پھر شروع کئے جانے کے ”امکانات”کی باتیں سامنے آجاتی ہیں گویا ایک اور یوٹرن ، کہ جس طرح ایک ڈیٹرجنٹ کی تشہیر کے حوالے سے داغی بلکہ”ضدی داغ” والے ملبوسات کو دھوتے ہوئے دکھا کر کہا جاتا ہے کہ ”داغ تو اچھے ہوتے ہیں” اسی طرح یوٹرن کے بارے میں پارٹی کے قائد کا ایک پرانا بیانیہ یہ بھی تو تھا کہ یوٹرن تو ”بڑے” لوگ لیتے ہیں خیر جانے دیں ان بیانیوں سے ہمیں کیا لینا دینا ہم تو اس بے چارے کے بارے میں سوچ رہے ہیں جنہوں نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا تھا کہ مذاکرات ناکام ہوئے تو ہم سڑکوں پر ہوں گے چنانچہ ان کے اس بیان پران کی اس خواہش کو بانی پی ٹی آئی نے پورا کرکے موصوف کو واقعی ”سڑک چھاپ” بنا کر یوں رکھ دیا کہ جیل حکام کو ہدایت دی کہ شیر افضل مروت کو ملاقات کے لئے نہ چھوڑا جائے گویا مرزا غالب کی یاد کرادی جنہوں نے کہا تھا کہ
میں نے کہا کہ بزم ناز غیر سے چاہئے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں؟
اب دیکھتے ہیں کہ موصوف”باہر” ہو کر مٹر گشت کرتے ہیں بالکل اس شخص کی مانند جو آزادی کے بعد فٹ پاتھ پر چھڑی گھماتے ہوئے ناز نخرے سے ٹہل رہا تھا ، اچانک سامنے سے آنے والے ایک دوسرے شخص کی ناک سے اس کی چھڑی جاٹکرائی سامنے والا غصے میں چھڑی والے پر چیخا اور کہا ، میاں ذرا سنبھل کے ، چھڑی والے نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کیا اب تو ہم آزاد ہیں انگریز ملک چھوڑ کر جا چکا ہے اب ہماری مرضی ہے جیسے چاہیں گھومیں پھریں ،متاثرہ شخص نے کیا میاں اب اتنی بھی آزادی تمہیں نہیں ملتی کیونکہ چھڑی گماتے ہوئے میری ناک کی سرحدوں کا خیال رکھنا بھی تمہاری ذمہ داری ہے ، مروت صاحب کو بقول ا ن کے سڑکوں پر آنے سے پہلے ان”سرحدات” کی فکر ضرور کرنی چاہئے تھی جو ایک ہی حکمنامے سے ”متاثر” ہو کر ان کو پابند کر گئے ہیں ۔ اب ان مذاکرات پر ان کے ساتھ تو شاید ہی کوئی اور باہر نکلے کیونکہ ”سڑکوں” پر نکلنے کے حوالے سے ان کا بیانہ ایک بار پھر گومگو کی کیفیت سے دو چار ہو کر ر ہ گیا ہے اور ممکن ہے کہ اس کالم کے شائع ہونے تک تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی وجہ سے سلسلہ جنبانی دوبارہ کسی”تھان” پر پڑائو ڈال کر موصوف کی اس ”تڑی” کو شرمندگی سے دو چار کرنے کا باعث بن چکی ہو۔ ویسے بھی مروت صاحب کی نصیب بھی کیا نصیب ہیں بانی کے ساتھ ان کے ”مراسم” پر دھوپ چھائوں کا عالم رہتا ہے کبھی باہر کر دیا جاتا ہے تو کبھی پھر”چمکارتے” ہوئے”ان” کر دیا جاتا ہے اور پشتو معاشرے میں مقبول اس روایتی کہانی کی طرح”خان”(یہ پشتو معاشرے کے روایتی خان کی بات ہو رہی ہے اور اس کا تحریک والے ”خان” سے صرف نام کی حد تک مماثلت ہے) راتہ ۔۔۔۔ وئیلی دی گماشتہ خوش خوش گھر جا کر خان کی ”پذیرائی” کی داستان فخر سے سناتا ہے بہرحال دونوں یعنی ”رہنما اور کارکن” کے مابین صورتحال نصیر ترابی کے اس شعر کی تفسیر بن کر رہ گئی ہے کہ
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی
خیر توتے(طوطے) کی طرح آنکھیں پھیرلینے کے حوالے سے تو پارٹی قائد ویسے بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے ” کہ جہانگیر ترین سے لے کر موجودہ”لاٹ”تک کتنے ایسے ہیں جن کو ٹشو پیپر کی مانند استعمال نہ کیا گیا ہو اس لئے ایک بے چارے شیر افضل مروت کی کیا اوقات رہ جاتی ہیں کیونکہ درمیان میں جن جن کی ”قربانی”دے کر بانی اب انہیں بھول چکے ہیں ان کی تو ایک طویل فہرست ہے ان میں فواد چوہدری بھی شامل ہے جو راندہ درگاہ ہو کر لاکھ کوششوں کے باوجود پارٹی کے بانی کے دل میں جگہ نہیں پا سکے اور اب بھی کبھی ذرا توجہ سے خو ش ہو جاتا ہے تو کبھی بے چارے کو”دھتکار” کر دور کر دیا جاتا ہے اس دوران بے چارے نے بہت کوشش کی کہ نون لیگ یا پیپلز پارٹی میں کوئی اسے ”مسکرا” کر دیکھنے کی غلطی کرے تو وہ ” گائے کی دم” پکڑ کر دہلیز پار کر جائے مگر وہاں تو بقول مرزا محمود سرحدی
مرے محبوب مسکرا کے نہ دیکھ
میرا روزہ خراب ہوتا ہے
والی کیفیت رہتی ہے اس لئے وہ بار بار سابق پارٹی کے حوالے سے بیان دے کر معانی تلافی کی کوشش کرتا ہے لیکن بقول احمد خلیل
دل شکستہ ہے کوئی ایسا ہنر مند بتا
جس نے ٹوٹے ہوئے شیشوں کی مرمت کی ہو
سو صورتحال یہ پن جاتی ہے کہ جو ایک بار باہر گیا وہ دوبارہ ” ان” ہونے کے لئے لاکھ کوشش کرے اس کے منت ترلے کام نہیں آتے البتہ شیر افضل مروت کو ایک بات کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ کئی بار ”باہر” کئے جانے کے باوجود موصوف نے کبھی بانی کے حوالے سے کوئی منفی بات منہ سے نہیں نکالی بلکہ صبر کا دامن تھامتے ہوئے”اچھے وقت” کے انتظار میں پارٹی اور بانی مخالف قوتوں پر ہی برستا رہا ہے اور یہی وہ وجہ ہے کہ ان کی بنیادی رکنیت ابھی تک سلامت رہی ہے مزید یہ کہ ان کے کچھ عرصے پہلے نظر سے گزرے ہوئے ایک بیان کے مطابق انہوں نے بانی کے مقدمات لڑنے کے حوالے سے کوئی عوضانہ وصول نہیں کیا(خدا جانے اس میں کتنی حقیقت ہے کہ دوسروں کے بارے میں تو یہ نظریہ عام ہے کہ وہ بانی اور اہلیہ کے مقدمات کے معاوضے کے حوالے سے لاکھوں بلکہ کروڑوں وصول کر چکے ہیں اگر موصوف کا یہ دعویٰ درست ہے تو پھر ان کو ایسے ”توہین آمیز”کلمات کا سامنا کیوں کرنا پڑا کہ ”شیر افضل مروت میراوکیل نہیں اسے جیل داخل نہ ہونے دیا جائے ” اس کے بعد تو جناب مروت کو غالب کے اس شعر میں پناہ ڈھونڈنے پر مجبور ہونا پڑے گا کہ
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
ویسے جیل کی راہداریاں کونسی اقتدار کے محلات کی غلام گردشیں ہیں جہاں جاتے ہوئے بندہ فخر سے سرشار ہوتا ہے حالانکہ ان غلام گردشوں کی اوقات چند سال پہل ایک ٹک ٹاکر نے جس طرح اپنی ٹھوکر کی نوک پر رکھتے ہوئے کھولنے اور اندر جا کر ایک ”بہت بڑی”کرسی پر بیٹھ کر واضح کر دیا تھا جس کی آج تک انکوائری کے نتائج تک سامنے نہیں آئے اس کے بعد ”اقتدار کی غلام گردشوں” کی حقیقت بھی واضح ہو گئی ہے اس لئے جناب مروت کو موجودہ صورتحال سے دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہئے کہ بقول شخصے ”وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا” بلکہ ایک کہانی کے مطابق ”یہ وقت بھی گزر جائے گا” کہ بقول محسن احسان
صبح سے شام ہوئی روٹھا ہوا بیٹھا ہوں
کوئی ایسا نہیں آکر جومنالے مجھ کو

مزید پڑھیں:  یادوں کے منظر نامے سے ۔نذیر تبسم کا نیا شعری مجموعہ