سرکاری ملازمین کا دھرنا؟

وزیراعظم شہباز شریف نے 10 فروری کو سرکاری ملازمین کی جانب سے پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے سامنے دھرنا دینے کے حوالے سے اعلانات سامنے آنے کے بعد وزارت خزانہ کو 5 روز کے اندر رپورٹ پیش کرنیکی ہدایت جاری کر دی ہے، واضح رہے کہ آل گورنمنٹ ایمپلائیز کوآرڈی نیشن کونسل کی جانب سے ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ،اس ضمن میں چار روز تک پشاور میں احتجاج کے بعد آئندہ ماہ 10 فروری کو اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کیا گیا ہے ، جبکہ اس حوالے سے چیف کوآرڈینیٹر کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف کو ایک خط بھی ارسال کیا گیا ہے جس کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعظم نے وزارت خزانہ سے اس پر پانچ دنوں میں سفارشات طلب کر لی ہیں، دوسری جانب ایک خبر کے مطابق ارکان پارلیمنٹ نے باہم اتفاق سے اپنی تنخواہیں اور مراعات میں اضافہ کرتے ہوئے تنخواہوں میں 250 فیصد تک اضافہ کر دیا ہے جو ایک غریب ملک کے خزانے پر بے پناہ بوجھ اور عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونیوالے ٹیکسوں کے استحصال کی ” زندہ ” مثال ہے، امر واقعہ یہ ہے کہ ایک ہی ملک میں عوام اور خواص کے مابین آمدن اور دیگر مدات کے حوالے سے دوغلی پالیسی اور دوہرے معیارات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، ایک جانب ارکان پارلیمنٹ جب چاہیں اپنی تنخواہوں اور مراعات میں بے پناہ اضافہ کر کے نہال ہونے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے جبکہ دوسری جانب عوام پر بے پناہ ٹیکس عاید کر کے ان کی چمڑی ادھیڑنے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا، جبکہ اسی پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کر کے سرکاری ملازمین اور پنشنرز کے جائز حقوق بھی سلب کئے جاتے ہیں، تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ حکومت نے سرکاری ملازمین اور خصوصاً پنشنرز کے حوالے سے جی پی فنڈ کے خاتمے، سی پی فنڈ کے اجراء اور پنشنرز کی پنشن میں 3سال تک ایک پیسے کا اضافہ نہ کرنے کے حوالے سے جو اقدامات اٹھائے ہیں ان کی وجہ سے حاضر سروس اور سابق (ریٹائرڈ) سرکاری ملازمین کیلئے ایک نئی مشکل پیدا کر دی ہے، مجبوراً سرکاری ملازمین اور پنشنرز نے اس پر احتجاج کرنیکا راستہ اختیار کر لیا ہے، ادھر حال ہی میں ایف بی آر کی جانب سے بھاری مقدار میں نئی گاڑیاں خریدنے پر اربوں روپے خرچ کرنے کا منصوبہ سامنے آیا تھا۔
، اس سے قومی خزانے کی ” بربادی” کا نیا راستہ کھولا گیا جس سے مراعات یافتہ طبقات کیلئے پرتیش سہولتیں اور عام سرکاری ملازمین کیلئے مصائب کے متضاد روئیے سامنے آتے ہیں، جب تک اس تغاوت کو ختم نہیں کیا جائیگا یہ ملک ترقی اور آسودگی کی راہ پر نہیں چل سکتا ،حکمران طبقات کو اس پر ضرور سوچنا چاہیے۔

مزید پڑھیں:  بدعنوانی کے ناسور کا ہر قیمت پر خاتمہ ہوناچاہئے