دنیا کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں ایک بھی قوم ایسی نہیں جس نے کسی دوسری زبان میں ترقی کی ہو۔دنیا کا جدید ترین ملک اسرائیل میں کسی کو انگریزی نہیں آتی۔کم مدت میں انتہائی ترقی کرنیوالا ملک جرمنی جہاں لوگ انگریزی سے نفرت کرتے ہیں۔دنیائے اسلام کا ترقی یافتہ ملک ترکی استاد سے لیکر آرمی چیف اور سائنسدان سے لیکر چیف جسٹس تک سارا نظام ترک زبان میں ہے۔چین میں کوئی سرکاری یا نجی عہدہ دار انگریزی زبان بولتا نظر نہیں آئیگا بلکہ اپنی قومی زبان میں تعلیم حاصل کرکے خود کو عالمی طاقت کے طور پر منوا لیا۔ایران کا تمام سرکاری نظام فارسی میں ترتیب دیا گیاہے،ہر سال نوبل انعام کیلئے کوئی نہ کوئی نامزد ہوتا ہے۔مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ یہ کس نے ہمارے دماغ میں بٹھا دیا کہ ہم انگریزی کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے تو میں جواب دیتا ہوں کہ جی اپنوں نے۔المیہ یہ ہے کہ اس قوم کا بچہthankyou تو بول سکتا ہے مگر شکریہ نہیں کہہ سکتا۔انتہائی ظلم تو یہ ہے کہ اس ملک کی چار دیواری میں چلنے والے اداروں میں داخلہ کی شرط Enklish speaking powerاور ساتھ ساتھ اس ملک کے باشندے قومی زبان کے استعمال سے ماتھے پر بل اور طبیعت پر بوجھ محسوس کرتے ہیں۔سوال یہ ہے اْردو ادب کی تاریخ ہزار سالہ پرانی ہے اور انگریزی ادب تین سو سال سے پہلے نظر نہیں آتا لہذا ہمیں اپنی زبان کو اہمیت دینی ہوگی اگر دنیا میں نام بنانا ہے تو! ساری دنیا ترقی کرگئی آپنی زبان کی بدولت اور ہم نے آدھی عمر گنوادی انگریزی زبان سیکھتے سیکھتے۔دستور پاکستان میں اْردو کو قومی زبان قرار دئیے جانے کے بعد اصولی اور قانونی طور پر سرکاری خط وکتابت سمیت تمام وفاقی،صوبائی اور بلدیاتی دفتری کارروائیوں میں اس زبان کا چلن نظر آنا چاہیے تھا تاہم 8 ستمبر 2015 کو سپریم کورٹ نے وفاقی وصوبائی حکومتوں کو دفتری خط وکتابت اور تمام محکمانہ امور اردو زبان میں انجام دینے کا حکم دیا لیکن عدالت عظمیٰ سے واضح حکم آنے کے باوجود سرکاری محکموں کی خط وکتابت اور نوٹسوں میں تاحال غیر ملکی زبان کا چلن مایوس کن صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قومی زبان اردو کو ہر سطح پر سرکاری زبان بنانے کے عملی اقدامات کیساتھ صوبائی و علاقائی زبانوں کی ترویج و ترقی پر بھی توجہ دی جاتی اور سکولوں کے نصاب تعلیم میں پشتو،سندھی،پنجابی اور بلوچی زبانیں سیکھنے کی گنجائش رکھی جاتی کیونکہ علاقائی زبانوں کا فروغ نہ صرف صوبائی و علاقائی رابطے کیلئے استعمال ہونے والی قومی زبان میں وسعت کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ غیر ملکی زبانوں کو سیکھنے میں بھی اس سے مدد ملتی ہے۔اردو کو مختلف اداروں محکموں اور عدالتوں سمیت ہر سطح پر سرکاری زبان بنانے سے کئی الجھنیں دور ہوں گی۔ملکوں کی تقدیر ان سیاستدانوں نے بدلی جو سچ اور حقیقت پر مبنی بیانیے پر عوام کا مینڈیٹ لیکر حکومت میں آئے۔مجھے تو افسوس اپنے ان عقل کے اندھوں پر ہوتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ سمیت سارا مغرب انسانی حقوق کا بڑا محافظ اور سب سے بڑا علمبردار ہے جبکہ وطن عزیز پاکستان میں شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا خیال تک نہیں رکھا جاتا۔ان کے عقل پر تعجب ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ مغرب میں اظہار رائے سمیت شہریوں کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے۔ مغرب کا یہ دعویٰ ہر گز غلط اور سراسر جھوٹ پر مبنی ہے کہ انسانیت کی قدریں صرف ان کے ہاں پیدا ہوئیں۔یہ دعویٰ بھی تسلط جمانے کی غرض سے کیا جاتا ہے۔دنیا کے ہر مذہب میں انسانیت ،ہمدردی ،رواداری ،محبت ،مساوات،دوسروں کی مدد کرنا،برابری وغیرہ جیسی قدریں ملتی ہیں۔دنیا کے ہر معاشرے اور تہذیب میں ان قدروں کو پامال بھی کیا گیا اور آمرانہ حکومتوں اور ظالم حکمرانوں نے انہیں پیروں تلے روندا۔چنانچہ یہ آمرانہ حکمرانوں کا تحفہ ہے کہ دین یا ایمان کے اندر چھپی اچھی قدروں کو روندا جائے اور جابرانہ عناصر کو ابھارا جائے۔ہماری تاریخ میں اور مقامی روایات میں انسانیت ،رواداری اور مل جل کر رہنے کی قدریں موجود ہیں۔انہیں تلاش کر کے منظر عام پر لانے کی شدید ضرورت ہے تاکہ ہم بنیاد پرستوں کے اکلوتے اور ختمی سچ کے آگے بے بس نہ ہو جائیں۔اسی طرح اب جدت کی طرف لے جانیوالی قومی ریاست لوگوں کو جدید بنانا چاہ رہی ہے اور ان کے عقائدپر یلغار کر رکھی ہے۔لوگوں کو سامراجی علم کے ذریعے جدید اور مہذب بنایا جا رہا ہے۔یہ نئے عقائد نئے تشدد کو جنم دے رہے ہیں جو ترقی،جدیدیت اور قومیت کے نام پر کیا جارہا ہے۔قوم کی تعمیر ،سائنسی ترقی ،تحفظ، جدیدیت،معاشی ترقی نیا مذہب بن چکے ہیں جن کی جستجو میں لوگوں کا طرز زندگی تباہ کیا جا رہا ہے۔یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ ہر شخص کو مغربی آدمی جیسا ہونا چاہیے۔انسانی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزی جو سب سے سنگین ہے وہ سامراجی قوتوں کا معاشی اور سیاسی تسلط ہے۔جب تک مسلمانوں میں اسلام کے اعلیٰ اقدار کی محبت رہی اور اپنے بلند نصب العین اور رضائے الہٰی کیلئے جان ومال کی قربانی دیتے رہے،وہ دنیا میں کامیاب و کامران رہے اور جس طرف بھی انہوں نے رخ کیا وہاں کی بڑی بڑی سلطنتیں ان کے تابع فرمان ہوتی رہیں اور حکمرانوں کے تحت ان کے قدموں کے نیچے آتے رہے۔جو قوم بھی آزاد ہوتی ہے اس کی اولین توجہ ملک میں دور غلامی کے مروجہ دستور وآئین کو ہٹانے اور ان کی جگہ اپنے نظریات وعقائد پر مبنی دستور کو رائج کرنے کی طرف مبذول ہوتی ہے۔لیکن اس آسمان کے نیچے ایک ایسا ملک بھی ہے جس میں رہتے مسلمان ہیں،حکومت مسلمانوں کی ہے،اس کو آزاد ہوئے ستتر سال ہو رہے ہیں مگر اب تک وہ انہی قوانین کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں جن سے چھٹکارا پانے کیلئے انہوں نے اتنی عظیم قربانیاں دیں۔وہ افراد جن کے ہاتھوں میں اس ملک کی عزت ہے ان کا فرض ہے کہ خدارا! اس ملک کی قومی تشخص کی بقاء کی جنگ لڑ کر غیروں کے طرزعمل،چال چلن،زبان وکردار کو خیرآباد کہہ کر اپنے ماتحت اداروں میں قومی زبان کو فروغ دینے کیلئے جہد مسلسل جاری رکھیں اور غیروں کی نقالی سے باز رکھنے کیلئے باقاعدہ کوئی قانون تشکیل دیں اور قومی زبان کو باقاعدہ قومی اور ملی حیثیت دیتے ہوئے بزور بازو اس کو نافذ کریں۔
