تحریک انصاف کے با نی اورسابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ترسیلات ارسال کرنے کا سلسلہ روک دینے کی اپیل کی ہے اپنے پیغام میں انہوںنے کہا ہے کہ اس حکومت کو پیسے بھیجنے سے وہ ہاتھ مضبوط ہوتے ہیں جو آپ کے گلے میں پھندا ڈال رہے ہیں ۔ یہ اپیل ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان گزشتہ ماہ شروع ہونے والے مذاکرات اس ہفتے ٹوٹ گئے۔ عمران خان نے 8 فروری کو ملک گیر مظاہروں کی بھی کال دی اور پارٹی کو ہدایت دی ہے کہ 8فروری2024کے انتخابات کو ایک سال پورا ہونے پر” یوم سیاہ” کے طور پر منائیں خیبرپختونخوا اور شمالی پنجاب کے لوگوں کو صوابی میں احتجاج کے لیے جمع ہونا چاہئے، جب کہ دوسرے شہروں کے لوگ اپنے اپنے علاقوں میں مظاہرے کریں۔ ایک سیاستدان کے طور پرحکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لئے ایک خاص دائرے میں رہ کر احتجاج ان کا حق بھی ہے اور اس حق کا سب سے بھر پور استعمال تحریک انصاف ہی نے کیا ہے اور اگر ایک قدم آگے بڑھ کردیکھا جائے تو تحریک انصاف ، جے یوآئی اور جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ بعض دیگر قوتوں کے علاوہ ملک کی سیاسی جماعتوں بشمول دو حکمران جماعتوں کے کسی میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ ایک بھرپور احتجاج ریکارڈ کرسکیں تاہم اس سے قطع نظر اگرنتائج کے اعتبار سے دیکھیں تو احتجاج کی بیل پس پردہ کے لوازمات کے بغیر منڈے نہیں چڑھتی یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کو سڑکوں پر قوت کے بھر پور مظاہرے کے باوجود کامیابی نہیں ہوسکی ہے جبکہ سیاسی مذاکرات کے حوالے سے پی ٹی آئی کی حکمت عملی اور کچھ لو کچھ دو سے قطع نظر بظاہر جس تحمل اور انتظار کی ضرورت ہوتی ہے اس کی کمی ہے اگردیکھا جائے توایسے وقت میں تحریک انصاف خیبر پختونخوا کی قیادت کی تبدیلی بھی قدرے عجلت میں کی گئی اس کے لئے حکومت سے مذاکرات کی اونٹ کس کروٹ بیٹھنے کا انتظارکر لیتی تو زیادہ مناسب ہوتا بہرحال یہ معاملات پر جملہ اثرات کا حامل نہ ہو گاممکن ہے آئندہ کے حالات میں زیادہ جارحانہ حکمت عملی اختیار ہونے جارہی ہے جس کی تیاری ہے اس تبدیلی کاایک واضح پیغام یہ بہرحال نکلتا ہے کہ اڈیالہ سے اب پھر دم دما مست قلندر کی تیاری ہے یوں احتجاج کی ایک اور لہر کی تیاری طرفیں کی ترجیح بن جائے گی جس سے قطع نظر سیاسی تقطیب کے باعث ملک معاشی طور پر جس نہج پر آگئی ہے اور اس طرح کے حالات میں حکومتی دعوئوں کے باوجود عملی طور پر صورتحال پر اطمینان کا اظہار ممکن نہیں عمران خان کی جانب سے ترسیلات زر کے حوالے سے کال پر عملدرآمد اور اس کے اثرات کے حوالے سے اس بنا پر محتاط رائے کی زیادہ ضرورت ہے کہ ان کے گزشتہ کال کے باوجود اعداد وشمار نیچے نہیں آئے بلکہ ترسیلات زر کے بہائو رکاوٹ کی بجائے اضافہ ہوا شرح سود میں کمی اور مہنگائی کی شرح میں بھی کمی ہوئی ترسیلات زر کی اپیل پر کچھ عرصے کے لئے تو عملدرآمدکی گنجائش ہو گی مگر جہاں خاندان کا دبائو ہو وہاں بیرون ملک مقیم افراد خواہش کے برعکس بھی رقوم بھیجنے پر مجبور ہوں گے بہرحال محولہ ہر دو حالات اور صورتحال سے قطع نظر اس بات سے انکارکی گنجائش نہیں کہ حکمران اشرافیہ کی جانب سے اصلاحات اور معاملات طے کرنے کے خلاف مزاحمت نے عام شہریوں کے لئے صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے بار بار آنے والے بحرانوں کو سہنے کی اب ملک اور شہریوں دونوں میں سکت نہیں بار بار آنے ولے بحرانوں اور کمزور حکومتی پالیسیوں سے ملکی معیشت کہیں زیادہ متاثر ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں ملک خطے میں کہیں پیچھے رہ گیا ہے عالمی بنک جس نے آئندہ دس سالوں میں پاکستان کو بیس بلین ڈالر قرض دینے کا وعدہ کیا ہے تاکہ ترقیاتی مسائل جیسا کہ موسمیاتی تغیر کے اثرات اور نجی شعبے کی ترقی پرتوجہ مرکوز کی جاسکے ایسے میں عالمی بنک بھی اس امر کی خواہاں ہے کہ حکومت معاملات درست کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر معاشی ا صلاحات نافذ کرے عالمی بنک کے جنوبی ایشیا کے لئے نائب صدر نے حال ہی میں پاکستان کے بہت سے دیرینہ چیلنجوں کی وجہ گزشتہ دہائیوں میںتوانائی پانی کے شعبے اور محصولات میں اصلاحات کرنے میں ملک کی ناکامی کو قرار دے چکے ہیں صرف ورلڈ بنک ہی واحد قرض دہندہ نہیں بلکہ آئی ایم ایف سمیت درجنوں اداروں کی جانب سے معیشت میں گہرے ڈھانچے کے عدم توازن کو درست کرنے کے لئے پالیسی اصلاحات پر عملدرآمد کی فوری ضرورت پر زور دیا جاتا رہا ہے مگر اس سب کچھ کے لئے ملک میں ساز گار سیاسی صورتحال امن وامان اور حکومت و حزب اختلاف کا باہم تعاون ضروری ہے اگر خدانخواستہ اسی طرح دست و گریباں اور امن و استحکام کے مسائل میں ملک مزید گھرا رہا تو اس کے نتائج ہی سے خوف آتا ہے ۔
