امریکہ میں اقتدار کی منتقلی کے بعد اگرچہ صدر کی پالیسی دنیامیں جنگ و جدل کے خلاف ہے لیکن افغانستان کے حوالے سے معاملات پھر بھی کچھ اس قسم کی ہونے کا ا مکان پایا جاتا ہے جسے پانی گدلا کیوں کیا سے مشابہ قرار دیا جاسکتا ہے ظاہر ہے ہمسایہ ملک کے حالات کے پاکستان پراثرات کو روکا نہیں جا سکتا علاوہ ازیں بھی خیبر پختونخوا میں خاص طور پر پکنے والی کھچڑی وہ تصویر پیش کر رہی ہے جس کا تذکرہ قبل از وقت ہوگا بہرحال اس حوالے سے صوبے کی دوسیاسی جماعتوںکے قائدین نے اپنے بیانات میں صورتحال سے آگاہ کرنے کی سعی ضرور کی ہے دینی جماعت کے قائد کے بیان کا ایک لفظ تو معنوی لحاظ سے بھی خوفناک ہے خطے کے حالات کو ملا کردیکھا جائے تو کڑی سے کڑی مل جاتی ہے کرم کے حالات سمیت صوبے کے جنوبی اضلاع میں حالات کسی سے پوشیدہ امر نہیں ایسے میں گو کہ امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان کا ہمارے داخلی حالات سے تو براہ راست کوئی تعلق نہیں لیکن اس کے ممکنہ اثرات سے خدشات کا ابھرنا فطری امر ہے ۔امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ امریکہ طالبان کے سرکردہ رہنمائوں کے سر کی بہت زیادہ قیمت مقرر کرنے کا اعلان کر سکتا ہے، ہم سن رہے ہیں کہ طالبان نے پہلے سے کہیں زیادہ امریکیوں کو یرغمال بنایا ہے۔اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ طالبان کے زیر حراست امریکیوں کی تعداد کتنی ہے۔ طالبان انتظامیہ کے ایک ترجمان نے تصدیق کی کہ تبادلے میںدوامریکیوں کو رہا کیا گیا ہے۔اس بیاں سے واضح طور پر اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کا جو شدید قلق تھا اب اس کا اظہار سامنے آیا ہے اور امریکہ ایک مرتبہ پھر قیدیوں اور اسلحہ کی واپسی کے نام پر افغانستان سے معاملات بگاڑنا چاہتا ہے مگر دوسری جانب حیرت انگیز امر یہ بھی ہے کہ امریکہ ہفتہ وار طالبان کو ”ڈالروں” کی ادائیگی بھی کرتا ہے جسے نہ ہی امداد اور نہ ہی بھتے کا نام دیا جا سکتا ہے بہرحال اس سے قطع نظر مشاہدے کی بات ہے کہ افغانستان جب بھی مسائل کا شکار ہوتا ہے مہاجرین کی بڑی تعداد سے لے کر دیگر مختلف النوع پیچیدہ معاملات میں پاکستان خواہی نخور ہی مشکلات کا شکار بن جاتا ہے اس وقت بھی افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات زیادہ اچھے نہیں اور نہ ہی بدقسمتی سے طالبان حکومت کا سلوک پاکستان سے ا چھے ہمسایوں کا اور برادرانہ ہے دونوں ممالک کے درمیان کشمکش کے حوالے سے بھی مختلف قسم کی چہ میگوئیاں جاری ہیں بنابریں امکان اس امر کا ہے کہ اگرچہ میگوئیوں میں حقیقت ہوئی تو خطے میں ایک مرتبہ پھر ممکنہ طور پر پیدا شدہ حالات دونوں ممالک کے لئے تکلیف دہ ہوسکتے ہیں جس سے بچنے کا بہتر طریقہ غلط فہمیوں کا خاتمہ اور ایک دوسرے سے تعلقات کو بہتر بنانا ہے جس کا ادراک ہی کافی نہیں بلکہ ماضی کی غلطیوں کو بھی دہرانے سے اجتناب ہونا چاہئے۔
