”دوپہر کی لومڑی حلال”

افغانستان میں طالبان حکومت اپنے ملک میں طالبات کی تعلیم پر قدغنیں لگا رہی ہے لیکن انہی طالبات کو پاکستان میں تعلیم کی اجازت دی جارہی ہے اخباری اطلاعات کے مطابق افغانستان میں برسراقتدار طالبان حکومت نے افغان طالبات کو پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی مشروط اجازت دینے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ طالبان حکام نے اس حوالے سے کہا ہے کہ اگر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کے مرد سرپرستوں کو بھی ان کے ساتھ پاکستان جانے کے لیے ویزا دیا جائے تو انہیں تعلیم کی اجازت دی جاسکتی ہے۔میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ پیش رفت اس وقت ہوئی ہے جب سینکڑوں افغان طلبہ نے پاکستانی یونیورسٹیوں میں گریجوایشن، پوسٹ گریجوایشن اور پی ایچ ڈی پروگرامز کے داخلہ ٹیسٹوں میں حصہ لیا۔افغان حکام کے مطابق، پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں نے پشاور اور کوئٹہ میں قائم کردہ امتحانی مراکز میں منعقدہ انٹری ٹیسٹوں میں حصہ لیا جب کہ افغانستان سے طلبہ اگلے چند دنوں میں ان ٹیسٹوں میں آن لائن حصہ لیں گے۔قبل ازیں، افغانستان میں پاکستان کے خصوصی ایلچی محمد صادق نے اعلان کیا تھا کہ تقریباً5ہزارطالبات سمیت21 ہزار افغان طلبہ نے پاکستان کی یونیورسٹیوں میں آئندہ موسم گرما کے تعلیمی سیشنز کے لیے اپنی درخواستیں جمع کرائی ہیں۔خیال رہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے دو ہزار افغان طلبہ کو منتخب کرنے کے لیے انٹری ٹیسٹ منعقد کیے تھے جن میں سے ایک تہائی طالبات تھیں۔افغان حکومت کی اجازت کے بغیر بھی پاکستان میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کے بچے پاکستانی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن میں طالبات کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے اب اس منطق کی شرعی طور پر درست ہونے کا سوال ہے کہ جس عصری تعلیم کے حصول کی افغانستان میں اجازت نہیںاس کی محرم کی شرط پر پاکستان میں اجازت دی جارہی ہے حالانکہ دیکھا جائے تو پاکستان میں عصری تعلیم کے اداروں اور خصوصاً نجی تعلیمی اداروں کا ماحول افغانستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ آزادانہ ہے طالبان حکومت کواگر دوسرے ملک میں طالبات کی حصول تعلیم پراعتراض نہیں توکیا یہ زیادہ بہتر نہیں کہ وہ خود اپنے ملک میں بھی اس کی اجازت دیں۔

مزید پڑھیں:  مسئلہ کشمیر اور بھارتی ہٹ دھرمی