انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں ہمارے اُستاد پروفیسر ڈاکٹر دُرانی اکثر یہ کہا کرتے کہ کبھی بھی زندگی میں شارٹ کٹ مت لینا۔ اُس وقت اُن کی یہ بات سن کر لفظ شارٹ کٹ کو کہیں پہنچنے کے لیے طویل راستے کی بجائے مختصر راستہ کے معنی میں لیا اور یوں بھی راستے کا شارٹ کٹ اتنا عام ہو چکا ہے کہ اب تک یہ لفظ اسی حوالے سے ہی زیادہ بولا اور سمجھا جاتا ہے۔ کہیں آنے جانے کے لیے جب کوئی مختصر راستہ (شارٹ کٹ ) لیتا ہے تو اپنے ذہن میں وقت،توانائی اور گاڑی کے تیل کی بچت ہی ساتھ لیے ہوتا ہے۔ آخر یہ شارٹ کٹ ہی کیوں ؟ کیا یہ صرف بچت کے لیے ہے ؟ یہ لفظ راستے کے حوالے سے اس قدر مروج ہے کہ ہم شعوری طور پر اس کے محرک سے وابستہ انسانی سوچ اور احساس کے بارے غور نہیں کرتے۔ اب قارئین کرام یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ بھلا شارٹ کٹ ایسا کون سا اہم سیاسی یا سماجی مسّلہ ہے ،جس کے بارے غور کیا جائے ۔
اگر ہم اپنے رہن سہن اور معاشرتی روئیوں کا تجزیاتی مطالعہ کریں تو شارٹ کٹ ہمارے روزمرہ کے معمولات کی بڑی حد تک غمازی کرتا ہے۔
کسی کا اپنی پریشانی اور اضطراب میں جلد بازی یا بے صبری سے کام کرنے کی وجہ تو سمجھی جا سکتی ہے لیکن یونہی بلا وجہ کسی کی جلد بازی اور بے چینی سمجھ سے بالا تر ہوتی ہے۔ ہاں فرد کے معاملہ میں نفسیاتی طور پہ اس کااعصابی تناؤ ہو سکتا ہے لیکن جب اجتماعی رویہ ایسا ہو جائے تو پھرہمیں اس کی وجہ سیاسی ،سماجی اور اقتصادی امور میں تلاش کرنی ہو گی۔یہی وہ روئیے پھر کسی قومی سوچ اور معاشرتی کردار کی پہچان بھی بن جاتے ہیں۔
اس وقت مُلک میں ذاتی اور اجتماعی حوالے سے جو برائیاں عام ہو چکی ہیں ،اس کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی طور پر اس کا شکار ہو چکا ہے۔ سفارش، رشوت، اقربا پروری، لوٹ کھسوٹ، حق تلفی اب روز مرہ کے معمولات ہیں جس کے ہم سب اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ان پر کسی کو حیرانی یا تعجب بھی نہیں ہوتا۔ ان حرکتوں اور ان سے ملتی جلتی دیگر باتوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ شارٹ کٹ کی ہی مختلف صورتیں ہیں۔ جائز ذرائع سے آمدنی کے حصول میں وقت اور محنت کی طلب رہتی ہے جبکہ ایک رشوت خور جلد از جلد کسی محنت کے بغیر امیر بننا چاہتا ہے ۔ لہذا کم عرصہ میں زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کو رشوت ہی شارٹ کٹ کا کام کرتی ہے۔ ایک جلد باز کے لیے ایسے میں محنت اور طویل راستہ اختیار کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر سلیم اختر نے شارٹ کٹ اختیار کرنے والے کرداروں کے روئیوں پر مبنی ایک مختصر سی لغت تیار کی ۔ جس میں رشوت اور ڈاکہ کو حصول دولت کے لیے شارٹ کٹ، بدلہ لینے کے لیے قتل، غیبت کے لیے کردار کشی، مکافات عمل سے بچنے کے لیے جھوٹ، ذاتی اغراض کے لیے ہر قسم کا جرم، اسی طرح سفارش کو طویل عمل کا شارٹ کٹ اور سیاسی تقرریوں کو کسی نااہل کا حصولِ منصب کے لیے شارٹ کٹ کہا گیا ہے۔ کرداری رحجانات مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں ،اس لیے ہر ایک اپنے انداز سے شارٹ کٹ کی لغت مرتب کر سکتا ہے۔ آج کل میڈیا ایک ایسا شارٹ کٹ ہے کہ بہت سے ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے۔ سرکاری اعزازات کا حصول تو آج کل صرف شارٹ کٹ ہی سے ممکن ہے، بھلے کسی کی جوتیاں اُٹھانا پڑے یا اعزازات کی خریداری کی جائے۔ یوں شہرتوں کے شوق میں بہت سی خواتین نے اپنی بدنامی اور بے ہودگی کو شارٹ کٹ بنا لیا۔ دینی مبلغین نے سرکاری مراعات پانے اور عوام میں ہردلعزیزی کی خاطر ریاکاری میں شارٹ کٹ ڈھونڈ لیا۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جب عاشقی صبر طلب ہو اور تمنا بے تاب ہونے لگے تو پھر اپنے محبوب کو اغوا کر لینا ہی کسی بے صبرے عاشق کا شارٹ کٹ ہوتا ہے۔ مستقبل بینی کے لیے بے صبری پر مبنی جذبہ بھی دراصل شارٹ کٹ ہے کہ لوگ ہر دست شناس اورنجومی کے سامنے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں اور فال کی صورت طوطے کا بھی اعتبار کر لیتے ہیں ۔حالانکہ وہ صرف میاں مٹھو ہی ہے، بس ہر شخص اپنے مستقبل کے بارے اتنا متجسس ہوتا ہے کہ سب کچھ آج ہی جان لینا چاہتا ہے ۔ اگرچہ یوں حاصل ہونے والی خوشی اور تسکین بڑی عارضی ہوتی ہے مگر کیا کیا جائے کہ دل کے بہلانے کو یہ شارٹ کٹ بڑا کارگر ہوتا ہے۔ دراصل بے صبری کا پیدا کردہ تناؤ ہی شارٹ کٹ کا محرک بنتا ہے۔ ویسے شارٹ کٹ کا رسیا جانتا ہے کہ کب اور کیسے اس سے کام لینا ہے ۔ایک بوڑھے سے کسی نے پوچھا کہ یہ درخت کیوں لگا رہے ہو ؟ بوڑھے نے جواب دیا کہ میٹھے پھل اور ٹھنڈی چھاؤں کے لیے لگا رہا ہوں۔ سوال کرنے والا ہنس پڑا کہ جب یہ درخت پھل دیں گے تو تم اس دنیا میں موجود بھی نہ ہو گے۔ بوڑھے نے کہا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا ، مَیں اس درخت کی صورت زندہ رہوں گا اور میری آنے والی نسلیں اس کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر پھل کھائے گی بلکہ میری گود میں ہی پلے گی ۔یہ کہہ کر وہ کسی ”شارٹ کٹ” سے بے نیاز اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔
