ایک واضح سمت کا تعین کرنے کی ضرورت

وزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈاپور کی میزبانی میںاسلام آباد میں”دہشت گردی کے خلاف قوم کا اتحاد”کے عنوان سے مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشاورتی اجلاس بانی چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر منعقد کیا جا رہا ہے جس کا مقصد ملک میں دہشت گردی، فرقہ واریت، لسانیات، صوبائیت کیخلاف اور ملک میں قانون کی حکمرانی کیلئے قومی سطح پر ایک جامع پالیسی کی تشکیل کے سلسلے میں مشاورت کرنا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ ان تجاویز کی روشنی میں آگے بڑھنے کیلئے کمیٹی تشکیل دی جائیگی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے معاملے پر پہلے دن ہی سے میرا موقف واضح ہے کہ تمام مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے ممکن ہے۔ عنقریب وفد افغانستان بھیجا جائے گا ۔ اس ضمن میں قومی سطح پر رابطوں کیلئے کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا تا کہ تمام قومی سیاسی جماعتوں کے درمیان تعاون ، رابطوں اور تجاویز کے ذریعے قومی مفاہمت و ترقی کا ایجنڈا تیار ہو۔قبل ازیں حال ہی میں پشاور میں اعلیٰ عسکری قیادت اور صوبے کی سیاسی جماعتوں کی بھی مشاورتی نشست ہوئی تھی جس میں بھی گورنر اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا دونوں شریک تھے ۔ اس اجلاس کے بعد اعلامیہ میں طاقت کے استعمال کاعندیہ دیا گیا تھا جبکہ اسلام آباد کے اجلاس کا اعلامیہ اس سے مختلف ہے البتہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا پشاور کے اجلاس اور اسلام آبادکے اجلاس میں موقف یکساں تھا اور وہ بات چیت و مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کے حل کے خواہاں ہیںامر واقع یہ ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے خوارج دہشت گرد ایک بار پھر پاکستان کے امن و امان میں خلل انداز ہو رہے ہیں۔ ان کے بڑے تربیتی اڈے تو ہمسایہ اسلامی ملک افغانستان میں ہیں مگر بڑی تعداد نے خیبر پختونخوا کے بعض دشوار گزار علاقوں میں بھی اپنی کمین گاہیں قائم کر لی ہیں جہاں سے وہ آئے روز کہیں نہ کہیں تخریبی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ہمارے تئیں مشکل امر یہ رہا ہے کہ اس حوالے سے حکومتی اورو ریاستی پالیسیاں یکسوئی اور یکسان نہیں رہتیں کبھی طاقت کے استعمال اور ہمسایہ ملک میں کیمپوں پر فضائی بمباری کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اور کبھی مذاکرات اور سفارتی طور پر اس مسئلے کا حل نکالنے کی تجویز دی جاتی ہے یہ پہلا موقع نہیں کہ افغانستان میں خوارج کے کیمپوں کے خاتمے اور دونوں ملکوں کے درمیان معاملات کا حل نکالنے کے لئے سلسلہ جنبانی کی کوشش کی تجویز سامنے آئی ہے ماضی میں سفارتی اور حکومتی سطح پر کوششوں کے ساتھ ساتھ جید علمائے کرام کا وفد کا بل کا دورہ کر چکا ہے جے یوآئی کے قائد مولانا فضل الرحمن بھی اس ضمن میں حکومتی دینی قائدین کی مشترکہ نمائندے کے طور پر کابل کا دورہ کر چکے ہیں المیہ یہ ہے کہ اس طرح کی کوششیں جس طرح سے شروع ہوتی ہیں اس طرح سے اچانک اور پراسرار طریقے سے پس منظرمیں بھی چلی جاتی ہیں ہمارے تئیں ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے اس امر کا فیصلہ کیا جائے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی اس مسئلے کا حل کیا اور کیسے چاہتے ہیں اب حال ہی کی مثال لیتے ہیں کہ پشاور میں ا جلاس کے بعد طاقت کے استعمال کا عندیہ دیاگیا جبکہ اسلام آباد کے اجلاس میں مفاہمت تجویز کی گئی یہ تو یہاں کی صورتحال ہے اس معاملے میں جس حکومت اور فریق سے ہمیں شکایت ہے وہ دوسرا ملک ہے جن سے بار بار رابطہ اور توجہ دلانے کے باوجودوہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کی بین الاقوامی ذمہ داری اور دوحہ معاہدے کی پابندی پر آمادہ ہی نہیں کوشش کے بعد بھی ناکامی اور مسائل ہو سکتے ہیں لیکن یہ دور کی بات ہے فی الوقت ان کی جانب سے ذمہ دارانہ کردار کے ادائیگی کا ہے ہر دو حکومتوں کو اب اس امر کا بخوبی ادراک ہو چکا ہو گا کہ اب عالمی حالات اور پالیسیوں میں بھی تبدیلی آچکی ہے جس کے پاکستان پر اثرات سے قطع نظر افغانستان اور کابل اور افغان عبوری حکومت میں شامل طالبان قیادت پر زیادہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیںصورتحال کے تناظر میں اب تک جو ہوا سو ہوا کے مصدا ق جانبین کو اب ذمہ دارانہ اور متین کردار ادا کرنے اور ایسا راستہ چننے کی ضرورت ہے کہ نہ صرف دونوں ممالک باہم ایک دوسرے کو درپیش مشکلات سے نکلنے میںتعاون کا راستہ اختیار کریں بلکہ کوئی ایسی خلا نہ چھوڑی جائے کہ اسے پر کرنے کے لئے ایک بارپھراغیار متوجہ ہوں اسلام آباد میں مشاورتی عمل کی تجاویز پر مزید غور و حوض اور اس عمل کو وسعت دینے کے لئے اس میں مزید سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور دینی قیادت کو بھی شامل کرکے حتمی لائحہ عمل تجویز کرکے اس پر حکومتی و ریاستی سطح پر سنجیدگی اختیار کرنا وقت کا تقاضا ہے ۔

مزید پڑھیں:  ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری ملازمین