شمسی توانائی کی حوصلہ شکنی کیوں؟

سرکاری دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ سولر نیٹ میٹرنگ سسٹم کے باعث گزشتہ سال 100ارب روپے کا اضافی بوجھ ان بجلی صارفین پر پڑا جو گرڈ سسٹم سے بجلی استعمال کر رہے ہیں۔ ترجمان پاور ڈویژن نے بتایا کہ مستقبل میں گرڈ صارفین پر بوجھ سے بچنے کے لیے ایک قابل عمل منصوبہ زیر غور ہے جس کے تحت حکومت شمسی نیٹ میٹرنگ نظام تبدیل کرکے گراس میٹرنگ متعارف کرا سکتی ہے جس میں بجلی کی خریداری کا نرخ21 روپے فی یونٹ کے بجائے8سے9روپے فی یونٹ ہوگا۔ پاور ڈویژن کو خدشہ ہے کہ اگر نئی پالیسی بروقت نہ لائی گئی تو اگلے 10سال میں موجودہ روف ٹاپ سولر پالیسی سے سسٹم پر503ارب روپے کا بوجھ بڑھ جائے گا جو غریب صارفین کو برداشت کرنا ہوگا۔ دستاویزات کے مطابق اب تک نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد بڑھ کر226440ہوگئی ہے جو کل37ملین بجلی صارفین کا صرف0.6فیصد ہیں۔ملک میں بجائے اس کے کہ شمسی توانائی پرمنتقلی کے نظام میں خلل ڈالنے اوراسے مشکلات کا باعث گرداننے کی بجائے اگرحکومت آئی پی پیز سے پیدا شدہ مشکلات پر توجہ دینے لگے تو یہ بہتر ہوگالوگوں کو اپنے وسائل پر شمسی توانائی پر منتقلی کے بعد ہی حکومت اس پوزیشن میں آگئی ہے کہ وہ آئی پی پیز سے معاملات پر نظرثانی کرسکے نیٹ میٹرنگ سے متعلق خدشات کو اگرتسلیم بھی کر لیاجائے تو اس کے باوجود بھی پاور ڈویژن سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس سے بجلی کی کتنی کھپت نظام میں آئی اور اس کے مقابلے میں نیٹ میٹرنگ کرنے والوں نے استعمال کتنا کیا تو معلوم ہوگا کہ نیٹ میٹرنگ کرنے والوں کے سینکڑوں سے لے کر ہزاروں یونٹ حکومت کے پاس پڑے ہیں ظاہر ہے ان کی ادائیگی کی کوئی صورت نہیں بنا بریں ان کے پاس واپس استعمال کرنے ہی کا انتخاب ہے مگر بہت ہی کم شاذو نادر ہی وہ اسے واپس استعمال کریں بلکہ اس کے مقابلے میں وہ نظام کو مزید بجلی دیتے رہیں گے اورآئندہ بھی حکومت ہی ان کی مقروض رہے گی بہرحال اب تک نیٹ میٹرنگ کرنے والوں کے ساتھ حکومت کا سات سالہ معاہدہ ہے بعد میں آنے والوں کے لئے کیا تجویز ہوتی ہے اس سے قطع نظر شمسی توانائی کی پیداوار کے علاوہ بجلی بنانے اور قیمت کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 37روپے بنتی ہے جہاںگھریلو بل عالمی اوسط کا 45.1اور ایشیائی اوسط کا 84.5فیصد ہے۔جبکہ کاروباری نرخ عالمی اوسط کا 110.1اور ایشیائی اوسط کا 154.3فیصد تک پہنچ جاتا ہے۔اگر جنوبی ایشیا کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس وقت بھارت میں بجلی کا ایک یونٹ14سے15روپے،بنگلہ دیش میں 18تا19روپے،جبکہ پاکستان میں 52روپے سے 65روپے ہے۔وطن عزیز میں اس قدر مہنگی بجلی کی وجہ اس کی پیداوار کا 61فیصددارومدار تیل و گیس پر ہوناہے جسے پاکستان بھاری زرمبادلہ کے عوض زیادہ تر ادھار بمعہ سودکے کھاتے میں درآمد کرتا ہے۔ملک میں ایسے المیے بھی موجود ہیں ،جن کی ایک مثال نیلم جہلم ہائیڈل منصوبہ ہے جو اپنی تکمیل کے بعد زیادہ عرصہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے بندش کا شکار چلا آیاہے۔یہاں یہ واضح رہے کہ ہرنفع نقصان کے پیچھے اس کا ماضی کارفرماہوتا ہے۔اگر ابتدائی برسوں میں کی گئی توانائی کے حصول کی منصوبہ بندی پر یکسوئی کے ساتھ عمل کیا جاتا تو آج یہ مشکلات درپیش نہ ہوتیںاور منگلا اور تربیلاکی طرح دیگر ڈیم ملکی ضرورت کیلئے کافی ہوتے اورعوام کو انتہائی سستی بجلی دستیاب ہوتی۔پاور ڈویژن جو بھی فیصلہ کرے نفع نقصان اور ملکی مفاد میں ہونا چاہئے اور ایسے فیصلوں سے گریز کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر ملک بحران کی زد میں آئے جیسا کہ ماضی میں ایسا ہوا ہے اور آج تک آئی پی پیز سے معاہدے گلے پڑے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں کی سرپرست افغان حکومت