نہیں کھلتا یہ عقدہ آج تک کیا شے ہے یہ لیڈر

سیانوں نے سچ تو کہا ہے کہ ”مشک آنست کہ خود ببوید ، نہ کہ عطار بگوید ” یعنی عطر وہ جو اپنی فطری خوشبو سے لوگوں کو مسحور کرے نہ کہ کوئی عطار مصنوعی طریقے سے خوشبو میں بھگو کر اس سے ماحول کو عطر بیز بنائے دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی خوشبو کی تعریف دوسرے کریں تو بات بنتی ہے اور وہ جو شیکسپیئر نے کہا تھا کہ گلاب کا کوئی بھی نام رکھ دیں ، اس کی خوشبو اتنی ہی بھینی ہو گی جتنی کہ گلاب کے نام سے وہ ماحول کودلفریب بنا دیتا ہے بات کسی اور سمت نہ مڑ جائے اس لئے اپنے موضوع تک ہی خود کو محدود رکھتے ہوئے خوشبو کی فطری خاصیت پر توجہ دیتے ہیں اور کراچی کے تاجروں کے اس مطالبے کے اندر جھانکتے ہیں جس نے کسی بھی سیاسی رہنما کی کارکردگی کے حوالے سے ایک ایسا معیار مقرر کر دیا ہے جس سے گڈ گورننس کی نئی جہتیں سامنے آئی ہیں یعنی بقول مرحوم سجاد بابر
کرن اترنے کی آہٹ سنائی دیتی ہے
میں کیا کروں مجھے خوشبو دکھائی دیتی ہے
وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کے ساتھ ایک ملاقات میں تاجر رہنمائوں نے مطالبہ کیا کہ کچھ عرصے کے لئے مریم نواز شریف ہمیں دیدیں اور مراد علی شاہ آپ رکھ لیں اجلاس میں شریک تمام تاجروں نے مریم نواز کو وزیر اعلیٰ سندھ بنانے کی حمایت کی وفاقی وزیر حسن اقبال تاجر رہنمائوں کے مطالبے پر بے ساختہ مسکرا دیئے تاہم انہوں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔ویسے تو ہم جانتے ہیں کہ یہ مطالبہ تفنن طبع کا باعث تو بن سکتا ہے جبکہ حقیقی طور پر قابل عمل نہیں ہو سکتا اور ہم بھی اس پر بقول ایک شاعر کے”مذاق ہی مذاق میں” کے حوالے سے تبصرہ کر رہے ہیں کیونکہ کالم نگاری کے تقاضوں کے عین مطابق ہمیں بھی ایسی ہی خبروں، تبصروں اور بیانات کی تلاش رہتی ہے اس لئے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ کراچی کے تاجروں کا یہ مطالبہ غیر فطری ہے البتہ اگر پختونخوا والے اس نوع کا کوئی مطالبہ کریں تو وہ بالکل فطری ، درست اور قابل عمل بھی ہوگا کیونکہ مریم نواز رشتے کے لحاظ سے خیبر پختونخوا کی بہو ہیں کہ ان کے شوہر کیپٹن صفدر کی جنم بھومی خیبر پختونخوا کا ضلع ہزارہ اور ان کا آبائی گھر مانسہرہ میں ہے یوں مریم نواز پر اگر حق بنتا ہے تو وہ ہمارے صوبے خیبر پختونخوا کا ہے ۔ اس لحاظ سے اگر وہ خیبر پختونخوا کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہو جاتی ہیں تو صوبے کے عوام کے دن پھر جائیں گے اور گزشتہ گیارہ بارہ برس سے اس بدنصیب صوبے کے ساتھ جو زیادتیاں ہو رہی ہیں عین ممکن ہے کہ ان کا خاتمہ ہو جائے مریم نواز کے حوالے سے جو دوسرے صوبے کے تاجر رائے دے رہے ہیں اور ان کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں تو اس پر خواجہ حیدر علی آتش نے صدیوں پہلے کہا تھا
سن تو سہی جہاں میںہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
ملک کے اندر ان دنوں یہ جو سیاسی گہما گہمی (اگر اسے مبارزت ، مقاومت بلکہ مبینہ طوپر منافقت نہ بھی کہا جائے) جاری ہے اور ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کئے جارہے ہیں تو اس پر اظہار حیرت کیا جائے تو کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے اور حیرت بھی اس لئے کہ کل کے مقتدر حلقے موجودہ صاحبان اقتدار پر جو الزامات لگا رہے ہیں اس حوالے سے بیان بازی سے پہلے اگر وہ اپنے گریبانوں میں جھانک لیں تو شاید ان کو ا پنا بیانہ بقول خواجہ آصف ”کچھ شرم ہوتی ہے ، کچھ حیا ہوتی ہے” والا ہی دکھائی دینے لگے ، مثلاً سابق وزیر مملکت علی محمد خان نے ان دنوں حکومت اور تحریک انصاف کے مابین نیمے دروں ، نیمے بروں صورتحال سے دو چار مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہئے کہا ہے کہ ”ہمارے دروازے مذاکرات کے لئے ہمیشہ کھلے تھے”۔ اسپر سبحان اللہ کا ورد تو یقینا بنتا ہے یعنی ان کے دور میں حزب اختلاف والوں کو ”انسان” یہ نہیں سمجھا جاتا تھا اور ان سے مذاکرات کے لئے دروازے کھلے رکھنا تو ایک طرف ان سے ہاتھ ملانا بھی ویسا ہی سمجھا جاتا تھا جیسا کہ بھارت میں ”نیچی جاتی کے دلتوں” کے ساتھ چھو جانا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ اس دورکے قائد حزب اختلاف اور موجودہ زیر اعظم شہباز شریف نے بارہا ملکی معیشت کے حوالے سے ”میثاق معیشت”پر سمجھوتے کا پیغام دیا مگر ان کی ہر پیشکش کو نہایت رعونت ، غرور، تکبر اور حقارت سے ٹھکرا کر انہیں”این آر او”مانگنے کے الزامات لگا کر دھتکارا جاتا رہا بلکہ ان سمیت لیگ اور پیپلز پارٹی کے اہم رہنمائوں کو بے بنیاد الزامات کے تحت مسلسل قیدو بند میں رکھ کر صعوبتوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ، مگر اب کئی ایک سیاسی تبصرہ نگاروں کے بقول یہ صاحب کلمہ پڑھ کر جھوٹ بولتے رہے اب بھی ان کا تازہ بیان جھوٹ کا شاہکار ہے بلکہ ان کے دور پر تو مرزا محمود سرحدی کا لگ بھگ70/65 سال پہلے کہا ہوا قطعہ پوری طرح فٹ بیٹھتا تھا کہ
اب جہاں جلسہ کیا جاتا ہے
پہلے قرآن پڑھا جاتا ہے
بعد میں نظمیں سنی جاتی ہیں
اور پھر جھوٹ کہا جاتا ہے
”وفاق کا خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ رویہ درست نہیں ہے اور یہ کہ وفاق خیبر پختونخوا کو فنڈز نہیں دے رہا” ان کی یہ بات اصولی طور پر درست بھی ہے اور ہم صوبے کے ایک باشندے کی حیثیت سے ان کی نہ صرف تائید کرتے ہیں بلکہ وفاق کے اس طرز عمل پر عوام کی جانب سے اس ضمن میں کسی بھی احتجاج میں شریک بھی ہیں تاہم اسد قیصر کو یاد دلاتے ہیں کہ جب وہ اول اول صوبائی اسمبلی کے سپیکر تھے اور پرویز خٹک بطور وزیر اعلیٰ پہلے نواز حکومت اور بعد میں بحیثیت سپیکر قومی اسمبلی صوبے کے پن بجلی منافع کے بقایاجات کے وزیر اعظم عمران خان سے مانگنے جاتے تھے اور عمران خان انہیں وعدوں کے لالی پاپ تھما کر وعدوں کے ٹرک کی لال بتی کے پیچھے دوڑا دیتے تھے تو تب اسد قیصر کو اپنا صوبہ اور صوبے میں اپنی ہی حکومت کی مشکلات یاد کیوں نہیں آئیں جبکہ یہ سلسلہ بعد میں محمود خان کے ساتھ بھی جاری رہا تب فنڈز کی کمی اور خالص منافع کی ا دائیگی سے انکار کے حوالے سے اپنے کردار پر غور کرنے کی ذرا بھی زحمت نہیں ہوئی ہم یہ نہیں کہتے کہ موجودہ حکومت صوبے کو فنڈز کی ادایگی میں مشکلات پیدا کرکے کوئی اچھا اقدام کر رہی ہے مگر اپنے یہ دور میں صوبہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف والے اس وقت کی ناانصافیوں پر کیوںخاموشی کی بکل اوڑھے منقار زیر پر رہے؟ویسے تب بھی انہیں ”ذاتی مفادات” نہیں بھولے تھے اور صوبے کو ملنے والے فنڈز کو تب بھی جس طرح مبینہ طور پر ”لوٹ کھسوٹ” کا سامنا رہا وہ داستانیں بھی جا بجا بکھری ہوئی ہیں اور بتایا جارہا ہے کہ معمولی حیثیت کے لوگ کس طرح چند سال کے اندر ارب پتی ، کھرب پتی بن گئے ہیں؟ یعنی بقول مرزا محمود سرحدی
نہیں کھلتا یہ عقدہ آج تک کیا شے ہے یہ لیڈر
کہ باتیں فقر کی کرتا ہے اور بنگلے میں رہتا ہے

مزید پڑھیں:  کورم کی نشاندہی پر سوال؟