ویب ڈیسک: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں۔ اس دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے بھی اپنے دلائل مکمل کرلیے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آج میں اپنے دلائل ختم کرلونگا، آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے، فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے۔
وکیل وزارت دفاع نے مؤقف اپنایا کہ 21ویں ترمیم اس لیے ہوئی کیونکہ ان واقعات میں جرائم آرمی ایکٹ میں نہیں آتے تھے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ نیکسز کا مطلب کیا ہوتا ہے، نیکسز کا ایک مطلب تو گٹھ جوڑ، تعلق، سازش یا جاسوس کیساتھ ملوث ہونا ہوتا ہے، نیکسز کی دوسری تعریف یہ ہو سکتی ہے کہ ایسا جرم جو فوج سے متعلق ہو۔
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ نیکسز کا مطلب ورک آف ڈیفنس میں خلل ڈالنا ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ورک آف ڈیفنس کی تعریف کو تو کھینچ کر کہیں بھی لے کر جایا جا سکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ سے ایک شخص کو 34 سال بعد رہائی ملی، کسی کو 34 سال بعد انصاف ملنے کا کیا فائدہ، ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں۔
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ 34سال بعد کسی کو رہائی دینا انصاف تو نہیں ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ میں نے پہلے بھی آپ سے ایک سوال پوچھا تھا، ماضی میں جی ایچ کیو اور مہران ایئر بیس جیسے حساس مقامات پر بھی حملے ہوئے، 21ویں ترمیم فیصلے میں کہا گیا سن 2002 سے لیکر ترمیم تک سولہ ہزار مختلف حساس مقامات پر حملے ہوئے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ایسے واقعات میں حساس مقامات پر تعینات اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں، ایک واقعہ میں دو کورین طیارے تباہ ہوئے جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا، کیا ان واقعات کی شدت زیادہ نہیں تھی، ایسے تمام واقعات کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا یا انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ہوا۔
وکیل وزارت دفاع نے استدلال کیا کہ جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا تھا، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل 21ویں ترمیم سے قبل ہوا تھا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ جی ایچ کیو حملے میں مجرمان کا ٹرائل 21ویں ترمیم سے قبل فوجی عدالت میں چلایا گیا، وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ مہران ایئربیس پر حملہ کرنے والے تمام دہشت گرد موقع پر ہی ہلاک کردیے گئے تھے، اس لیے وہاں ملٹری ٹرائل کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔
اس کے ساتھ ہی وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت میں ساڑھے 11 بجے تک وقفہ کردیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ ہم وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل پر انخصار کرتے ہیں، جواب الجواب میں اپنے دلائل دیں گے، وکیل بلوچستان حکومت نے کہا کہ ہم بھی وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل پر انخصار کرتے ہیں۔
