تحریک انصاف نے مذاکرات بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک بار پھر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے رابطہ کرکے ان کو گرینڈ اپوزیشن الائنس میں شمولیت کی دعوت دیتے ہوئے سیاسی امور پر مشاور ت کی ادھر سپیکر ایاز صادق نے گزشتہ روز حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے کے لئے جو اجلاس بلایا تھا اس میں حکومتی نمائندے تو پہنچ گئے تھے مگر تحریک کی جانب سے کوئی بھی رہنما شرکت کے لئے دستیاب نہیں تھا اور سپیکر نے 55 منٹ تک تحریک کے رہنمائوں کا انتظار کرنے اور بار بار فون پر رابطے اور پیغامات بھجوانے کے بعدبھی کوئی مثبت جواب نہ ملنے کے بعد اجلاس کو بے نتیجہ ختم ہونے کی بناء پرغیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا اس موقع پرانہوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں فریقین مذاکرات جاری رکھیں گے حکومتی ٹیم کے ارکان نے اس حوالے سے کہا کہ ہم پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے ، اپوزیشن آتی تو جواب دیتے ، جو راستہ وہ سڑک کے ذریعے نکالناچاہتے ہیں وہ نہیں نکلے گا ، اس سے ان کا اور جمہوریت کا نقصان ہو گا امر واقعہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی ہی درخواست پر بڑی ہی ردو قدح کے بعد بالآخر سیاسی مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لئے مذاکرات کا جو عمل شروع کیا گیا تھا اس پر ابتداء ہی سے یکطرفہ طور پر ہٹ دھرمی اور غیر آئینی و غیر قانونی بیانہ کے سائے منڈلاتے نظر آرہے تھے اس حوالے سے شرائط رکھتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ تحریک کے بانی کو رہا کرنے کی راہ ہموار کی جائے حالانکہ ماہرین آئین وقانون اور سیاسی بصیرت رکھنے والے لوگوں کی نپی تلی رائے ہے کہ جب کسی شخص کے خلاف مختلف نوعیت کی انکوائریاں اور مقدمات کی پیروی ہو رہی ہو (موجودہ چودہ سالہ قید کے احکامات سے ماورائ) تو جب تک محولہ معاملات کیس حتمی نتیجے تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس کو صرف ایک حکومتی حکمنامے کے ذریعے رہا کرنا قانونی طور پر درست نہیں ہوتا لیکن تحریک انصاف ایک جانب مذاکرات کر رہی تھی اور دوسری جانب حکومت پر ”دبائو” ڈالنے کے حوالے سے مختلف حربے استعمال کر رہی تھی جو ظاہر ہے ممکنات میں سے نہیں ہے ، اس قسم کے حربوں کو مبینہ طور پر سیاسی بلیک میلنگ سے تشبیہ دی جاتی ہے ، یعنی کمیشن توتب قائم کیا جا سکتا ہے جب عدالت میں کوئی مقدمات نہ ہوں اور کسی مسئلے پر تحقیقات کے لئے کمیشن بنانے کے حوالے سے سوچ جنم لے چکی ہو ، یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ جب تحریک انصاف خود برسراقتدار تھی تواس نے اپنے دور کے حزب اختلاف کے رہنمائوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا بلکہ فیک مقدمات میں مخالف سیاسی رہنمائوں کو قیدوبند میں ڈال کران پر چور ڈاکو جیسے الزامات لگانے اور انہیں بدنام کرنے ، ان کو دھمکیاں دینے اور ان کے گھروں کے باہر اپنے ورکروں کے ذریعے احتجاجی مظاہرے کرنے ، ان کے اہل خانہ کو ہراساں کرنے جیسی صورتحال کی حوصلہ افزائی کرنے یہاں تک کہ بیرون ملک بھی ان کے خلاف ٹرولنگ کرنے سے پارٹی ورکرز باز نہیں آتے تھے ، لیکن اب جبکہ یا تو ان کے خلاف مختلف نوعیت کے مقدمات قائم ہیں یا پھر یہ ملکی حساس اداروں پر حملوں کے الزامات میں قانونی چارہ جوئی کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ بانی تحریک انصاف کو ایک مقدمے میں 14سال قید کے علاوہ مزید کئی مقدمات کا عدالتوں میں سامنا ہے اور قانونی طور پر کسی مقدمے کے دوران انکوائری کمیشن کے قیام کا کوئی جواز ہے نہ ہی قانون میں گنجائش تو ایسی صورت میں مذاکراتی عمل کے دوران جو مطالبات ان کی جانب سے پیش کئے گئے تھے ان پر حکومتی ٹیم کے جوابات وصول کرنے سے پہلے ہی مذاکرات سے کنی کتراتے ہوئے الگ ہو کرمذاکرات کے خاتمے کا جواز بنتا ہی نہیں بہتر ہو تا کہ تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم گزشتہ روز کے اجلاس میں شرکت کرکے اپنے سوالات کے حوالے سے حکومتی موقف معلوم کرتی اس کے بعداگر مذاکرات سے علیحدگی کافیصلہ کرتی تو ممکن ہے اس کے لئے کوئی جواز بھی ان کے ہاتھ لگ جاتا بہرحال ملک میں سیاسی معاملات کا حل صرف مذاکرات ہی کے ذریعے مل سکتاہے ۔حکومت کوبھی اپنا رویئے میں تبدیلی لانی چاہئے اور ان کو اس امر کا ادراک ہونا چاہئے تھا کہ ڈیڈ لاک اور مذاکرات کا خاتمہ خود اپنے حق میں بھی بہتر نہیں آخر اس ملک کو کب سیاسی انتشار اور بحران سے نکالنے میں سنجیدگی اختیار کی جائے گی اور عوام کی کب سنی جائے گی یاپھر ملک اقتدار اور اقتدار کی جنگ کی نذر ہی رہے گا۔
