رات کے گیارہ بج چکے ہیں۔کمرے کی لائٹ آف ہو چکی ہے۔پتہ نہیں کیوں تاریکی میں اندر کی آنکھیں کچھ بہتر دیکھنے لگتی ہیں۔شاید دن کی بھیڑ میں بندہ اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھ سکتا۔دن کی مصروفیات میں اپنے اندر یا قوم کی جسد کے اندر جھانکنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ بس تاریکی پھیل جائے تو اندر ایک ہلکا سا دیا روشن ہوجاتا ہے۔ اور اس روشنی میں ملکی حالت دیکھ کر ڈیپریشن کا شکار ہوجاتا ہوں۔
بظاہر سب ٹھیک ٹھاک ہے۔لیکن پتہ نہیں ملک کے اندر اپنی ہی سرزمین پر رجعت پسندوں’ جمہوریت پسندوں’ انتہا پسندوں’ دہشت گردوں اور خوارج کے رنگ برنگے نام پانے والے ہم وطنوں کے خلاف آپریشن در آپریشن کی خبریں سن کر نیند اڑ جاتی ہے اور مشرقی پاکستان کے آپریشن در آپریشن اور ان آپریشنوں کے نتیجے میں سقوط ڈھاکہ کے مناظر سامنے لہرانے لگتے ہیں۔
پتہ نہیں ہماری اندرونی ساخت میں کیوں یہ خرابی در آئی ہے۔کہ ہم پرانی چیزیں توڑ کر نئی چیزیں بنانے کا شوق پالے ہوے ہیں۔جیسے بنگال ڈبو کر نیا پاکستان بنایا۔اب بلوچستان اور قبائلی علاقوں پر بارود برسا کر انہیں پاکستان سے متنفر کرنے اور ایک نیا تر و تازہ پاکستان بنانے پر زور شور سے کام شروع ہے۔میرے منہ میں خاک ۔ اللہ نہ کرے کہ میری زندگی میں ایسا ہو۔ کالج کے فرسٹ ائیر 1970 ہی سے پاکستان کی لڑائی لڑ رہا ہوں ۔ اپنے جیتے جی ایک اور سقوط ڈھاکہ نہیں دیکھ سکتا۔
یکطرفہ بیانیہ سنتی رہی۔اور غلط فہمی میں اپنے مشرقی بھائیوں کے جمہوریت پسندوں کو غدار مانتی رہی۔ نتیجہ تباہی نکلا۔ اب آپ قوم کا بیانیہ سن لیجئے کہ اس قوم میں کوئی بھی غدار نہیں۔بس لوگ اپنے جائز حقوق مانگ رہے ہیں۔جس میں اپنے ووٹ سے اپنے حکمران چننے کا حق سر فہرست ہے۔
چند ہی سال پہلے مصر کے مرحوم صدر محمد مرسی نے ایک دفعہ اپنے ملک کی مقتدرہ اور دوسرے اسلامی ممالک کے مقتدراوں کو نصیحت کی تھی۔کہ اپنے گھر کے شیروں کو مت ماریں۔ورنہ دشمن کے گیدڑ تمہیں کھا جائیں گے۔لیکن مصری مقتدرہ نے صدر مرسی کو شہید کرنے کے بعد اپنے ملک کے شیروں کے پائوں میں زنجیریں ڈال دیں ۔ نتیجہ یہ کہ غزہ کے ستر ہزار مسلمان شہید اپنے کلمہ گو بھائیوں کو مدد کیلئے پکارتے رہے۔لیکن مصر یا دوسرے عرب ممالک سے مجاہدین کے قافلے مدد کیلئے نہ پہنچ سکے۔اور غزہ کے شیروں نے اکیلے ہی تاریخ کی سخت ترین مزاحمت پیش کرکے اور بہت سارے نقصانات اٹھا کر صیہونیوں کو مذاکرات کی میز پر آنے کیلئے مجبور کر دیا ۔مسلم دنیا سے مدد کیلئے آنے والے قافلوں کو بیغیرت عرب حکمران راستہ ہی دے دیتے۔تو نقشہ بدل سکتا تھا۔اسرائیل کو بزور بازو غزہ اور مغربی کنارے سے پیچھے دھکیلا جاسکتا تھا۔ اور یو این قراردادوں کے مطابق دوریاستی حل کیلئے صیہونی اور ان کے سرپرست امریکی راضی ہو جاتے۔ لیکن افسوس اب یہ منزل مزید دور ہوگئی ہے۔
آئیں اپنے ملک کے شیروں کے خلاف آپریشن در آپریشن لانچ کرنے کی بجائے ان کے ساتھ مذاکرات کریں۔ ان کو اپنے ہی خیمے میں مناسب جگہ دیں۔تاکہ دشمن انہیں اپنی طرف راغب نہ کرسکے۔یہی تو ہمارا اصل سرمایہ ہیں۔ان کو پاک فوج کا دست و بازو بنائیں۔ یہ تو وہ سر فروش ہیں۔جو بغیر تنخواہ لئے یا معمولی وظائف پر اسلام اور پاکستان کیلئے لڑ تے رہیں گے۔جب کہ ان کے مقابلے میں دوسرے تو اچھی تنخواہ اور آرام دہ زندگی کیلئے ماں دھرتی کو چھوڑ کر دوسرے ممالک کی شہریت لینے کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔روس ‘ یوکرین اور دوسرے متحارب ممالک کیلئے اصل مشکلات میدان جنگ میں لڑنے والے افرادی قوت کی کمی کا ہے۔روس شمالی کوریا سے فوجی منگوا رہا ہے۔جب کہ ہم ایسے احمق ہیں۔کہ کم از کم چالیس پچاس ہزار کے سرفروشوں کو اپنی طاقت بنانے کی بجائے ان کو دشمنوں کی صف میں دھکیل رہے ہیں۔کیا یہی نظریاتی لوگ بغیر فضائی دفاع کے افغانستان میں بیس سال تک نہیں لڑے۔کیا یہی نظریاتی لوگ بغیر کسی فضائی دفاع کے غزہ میں پندرہ مہینے تک نہیں لڑے۔
کیا ہمارے اذہان حکمت و دانائی سے محروم ہو چکے ہیں۔کیا ہم ذہنی طور پر اتنے بانجھ اور اتنے کوڑھ مغز ہو گئے ہیں۔کہ اتنی بڑی جنگجو اور سرفروش فورس کو ساتھ ملا کے ان کو پاکستان پر حملہ آور ممالک کے خلاف نہیں لڑا سکتے۔ ان فدائی یونٹوں کو دشمن ممالک کے مورچوں کے پیچھے اور اڈوں پر چھاتہ بردار فوج کی حیثیت سے اتار کر ان دشمنوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے ۔یہ دلیر جنگجو ہوتے۔تو ہم ہتھیار ڈالنے کی بجائے ڈھاکہ میں غلے اور پانی کے ذخیروں پر قبضہ کرکے بغیر فضائی کور کے مزید کئی مہینے تک لڑ سکتے تھے۔دفاع آسان اور حملہ مشکل ہوتا ہے۔ دشمن بہت ذیادہ جانی نقصان کے بعد آخرکار تھک جاتا۔اور مذاکرات کی میز پر کم از کم باعزت انخلا کی شرط منوائی جاتی۔ اور ہم اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری میں موجود اپنے دوستوں کی مدد سے پاک افواج کو عزت و احترام کے ساتھ مشرقی پاکستان سے نکال لیتے۔ بھارتی افواج کے سنئیر جنرلز بھی یہ اعتراف کئی بار کر چکے ہیں۔ کہ پاک فوج کے مجاہد شیروں کی طرح دشمن کے ساتھ لڑے تھے۔ایسے شیروں کو پورے وقار کے ساتھ اپنے گھر لانا ہمارا فرض تھا۔لیکن اللہ کی غلامی کی بجائے نام نہاد زمینی حقایق کے غلام کچھ کم ہمتوں نے ہتھیار ڈالنے ہی میں عافیت سمجھی۔ اور اسلامی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ کیا۔
کیا بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی پکار پر انہی سرفروشوں کے آباو اجداد نے کشمیر میں جہاد کرکے موجودہ آزاد کشمیر آزاد نہیں کرایا تھا۔ سرینگر تو بالکل سامنے دو گھنٹے کی مسافت پر تھا ۔ لیکن بھارتی افواج کی زبردست گولہ باری کی وجہ سے مزید پیش قدمی مشکل ہو گئی تھی۔۔مجاہدین نے صرف دو بکتر بند گاڈیاں مانگی تھیں۔تاکہ ان کی آڑ میں پیش قدمی کرکے سرینگر پر قبضہ کر سکیں۔لیکن اقتدار پر قابض بزدلوں نے امریکہ کی ناراضگی کے ڈر سے دو بکتر بند گاڈیاں تک نہیں دیں۔ ورنہ تاریخ بدل جاتی۔کشمیر کا قضیہ صاف ہونے کے بعد بھارت کے ساتھ باقی سارے تنازعات بھی حل ہو جاتے۔اور دونوں ممالک اسلحے کے انباروں پر ضائع ہونے والی دولت اپنے اپنے عوام کی صحت اور تعلیم پر لگا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جاتے۔تاریخ صرف ایک دفعہ ہی قسمت بدلنے کا دروازہ کھولتی ہے۔ اور ایک دفعہ ہی عینک بدلنے کا موقع دیتی ہے۔ اب ہم صرف سری نگر جانے والی روڈ کا نام ہی سری نگر روڈ رکھ سکتے ہیں۔باقی خواب چکنا چور ہو گئے ہیں۔
کیا اب ہم میں قائداعظم محمد علی جناح جیسی کوئی بلند و بالا شخصیت باقی نہیں رہی۔جن کی نظر مستقبل کے طوفانوں پر ہو۔اور جو ان جیسے اثاثوں کو سینے سے لگا کر سخت وقت کیلئے محفوظ رکھے۔اور عین موقع پر میدان کارزار میں اتار کر اپنی تاریخ میں سنہرے ابواب کا اضافہ کرے۔
