انسداد رشوت ستانی ، عملی کام کی ضرورت

پاکستان تحریک انصاف کے بانی قائد کے فرمان پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا میں گنڈا پور کی سیاسی مصروفیات سے فراغت کے بعد حکومتی معاملات اور بطور خاص رشوت اور بدعنوانی کے خاتمے کے طرف توجہ صوبہ ، عوام اور خود حکمران جماعت سبھی کے مفادمیں ہوگا وزیر اعلیٰ اور اسیر قائد کے درمیان جیل میں ملاقات میں بات چیت کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی اطلاعات میں کہا گیا ہے کہذرائع کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے علی امین گنڈاپور سے کہا کہ پارٹی صدارت کا عہدہ اس لیے واپس لیا تاکہ آپ پرکام کا بوجھ کم ہو اور آپ گڈگورننس پرتوجہ دے سکیں، آپ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں،گورننس کو بہتر کریں، میری مکمل سپورٹ ہے، آپ کو مکمل اختیارحاصل ہے۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ عمران خان نے علی امین کو کہا کہ صوبے میں بیڈگورننس اورکرپشن کی شکایات مل رہی ہیں، اس پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ پوسٹنگ ٹرانسفرز میں میرا کوئی کردار نہیں، اراکین اسمبلی پوسٹنگ ٹرانسفرز کرواتے ہیں اور شکایتیں میرے خلاف کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان نے وزیراعلیٰ کو ہدایت کی کہ صوبے میں مبینہ کرپشن اوربیڈگورننس سے متعلق شکایات کا خاتمہ کریں۔ عمران خان سے ملاقات کے بعد علی امین گنڈاپور نے معاون خصوصی اینٹی کرپشن سے ملاقات کی جس میں وزیراعلیٰ نے انہیں ہدایت کی کہ صوبے میں کرپشن کا خاتمہ کریں، آپ کو مکمل اختیار ہے جو بھی کرپشن میں ملوث ہے اسے قانون کے کٹہرے میں لائیں۔ اس حوالے سے مشیر اطلاعات کے پی بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ صوبے میں کرپشن کا خاتمہ کیاجائیگا اور کرپشن کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ بیرسٹر سیف نے کہا وزیراعلیٰ نے واضح کردیا ہے کہ جس کے خلاف شکایت ملی تحقیقات کی جائیں گی اور تحقیقات کے بعدکرپشن میں ملوث افرادکے خلاف کارروائی ہوگی۔رشوت ستانی و بدعنوانی اور اختیارات کا ناجائز استعمال سیاسی بھرتیاں اور مفاد پرستی کسی ایک صوبے کی حکومت کابینہ اور اراکین اسمبلی کا وتیرہ نہیں ملک بھرمیںکم و بیش یہی صورتحال ہے تحریک انصاف کی حکومتیں بھی اس سے مبرا نہیں اور نہ ہی ان کا دامن صاف رہا ہے البتہ ایک امتیاز ضرور ہے کہ جس طرح تحریک انصاف بدعنوانی اور لوٹ مار کے خلاف بات کرتی ہے عملی طورپر اس پر عملدرآمدکی صورتحال نہ ہونے کے برابر ہونے کے باوجود بھی اس امر کابہرحال اعتراف کرنے کی ضرورت ہے کہ انسداد رشوت ستانی کے سطحی ا قدامات ہی سہی کچھ نہ ہونے سے کچھ نہ کچھ ہونا بہتر ہے کے مصداق کابینہ کے اراکین تک کے خلاف کارروائی ہوتی رہی ہے اس وقت بھی ایک کمیٹی اس حوالے سے کام کر رہی ہے اگر سیاسی مصلحتوں کی پرواہ کئے بغیر کمیٹی اپنا کام کرے اور شکایات پر جامع تحقیقات اور کارروائیاں ہونے لگیں تبھی اس کی کارکردگی پراطمینان کا اظہار کیا جاسکے گا ایسالگتا ہے کہ خود کمیٹی کوبھی دبائوکا سامنا ہے جن کی جانب سے کارروائی شروع ہونے سے دبائو میں ا ضافہ ہوا اور سیاسی مصلحتوں کے تحت ایک کارروائی کے بعد دیگر افراد کے خلاف ٹھوس شکایات اور شاید کسی حد تک ثبوت ہونے کے باجود مزید کارروائی نہ ہوسکی اب جبکہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کوبانی قائد کی جانب سے واضح طور پر ہدایات مل چکی ہیں تو اس کی ابتداء کابینہ کے ان اراکین کے خلاف کارروائی سے ہونی چاہئے جن کے حوالے سے ٹھوس بنیادوں پر شکایات موجود ہیں صرف کابینہ میں تبدیلی اور ان کو ہٹایا جانا کافی نہ ہو گا بلکہ اس عمل کو صرف نظر اور سیاست و حکومت کو شفافیت پر ترجیح گردانا جائے ۔ اراکین کابینہ و اسمبلی کا ٹرانسفر پوسٹنگ میں کردار اور بدعنوانی جیسے معاملات ہر حکومت کا درد سر ہوتے ہیں اس کے حوالے سے ہر بار مژدہ تو دیا جاتا ہے مگر بیل کبھی بھی منڈھے نہیں چڑھ پاتی اور معاملہ انگور کھٹے ہیں ہی تک رہ جاتا ہے یہ شاید بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے کا معاملہ ہے جس کی ہمت نہیں ہو پاتی یوں شدید خواہش کے باوجود اس کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا عمل نہیں ہو پاتا اور ہر باربلی اور بلا مل کردودھ ہڑپ کر جاتے ہیںاس طرح کے ماحول میں پھر بیورو کریسی کا ہاتھ روکنے اور ٹوکنے والا تو درکناربلکہ بیورو کریسی کو ساتھ ملا کر ہی سب کچھ کیا جاتا ہے ایسے میں کبھی بھی ا چھی حکمرانی کاتصور قائم نہیں ہوسکے گا اور نہ ہی بدعنوانی کاخاتمہ ممکن ہو سکے گا کتنے افسران کے خلاف انکوائری اور کارروائی کے لئے فائلیں چیف سیکرٹری اور وزیر اعلیٰ کے دستخطوں کی منتظر ہیںجب وہاں سے سرپرستی ہوگی اس کے بعد ہی انسداد بدعنوانی کا عملہ معاملات کو آگے بڑھا پائے گا جن کی اپنی کارکردگی اور ملی بھگت بھی کسی سے پوشیدہ نہ ہوان کی سرپرستی و نگرانی کے بغیر موثر کارروائی کی توقع اور بدعنوانی میں کمی لانے بدعنوانوں کو سزا کی توقع دیوانے کا خواب ہی کہلائے گا اگر وزیراعلیٰ بانی قائد کے فرمان اور اپنے عزم کی تکمیل میں سنجیدہ ہیں اور اسے دیوانے کے خواب کے مماثل نہیں چھوڑناچاہتے تو اس کے لئے ایسے اقدامات سے بھی گریز نہ کرنا ہو گا خواہ اس سے حکومت کی بنیادیں ہل ہی کیوںنہ جائیں اس سے کم میں تو طفل تسلیاں ہی ہوسکتی ہیں عملی طور پر کچھ نہیں۔

مزید پڑھیں:  بلدیاتی اداروں کے ساتھ زیادتی