نہ چھیڑ ملنگاں نوں

صدر مملکت آصف علی زرداری نے گزشتہ روز پیکا آرڈیننس ترمیمی بل مجریہ 2025 پر دستخط کردیئے جس کے ساتھ ہی اس کا نفاذ ہوگیا۔ پیکا آرڈیننس کا قانون مسلم لیگ (ن)2013 سے 2018والے اپنے دور اقتدار میں لائی تھی۔ تب الحمدللہ مسلم لیگ (ن) پی پی اور تحریک انصاف نے متفقہ طور پر اس کی منظوری دی تھی ، قانون کی منظوری کے بعد تحریک انصاف نے حسب عادت رولا ڈالا تو ہمیں اسے بتانا پڑا کہ شیریں مزاری سمیت اس کے جتنے بھی ارکان خصوصی کمیٹی میں شامل تھے سبھی نے قانون کی منظوری کے حق میں ووٹ دیا اور قومی اسمبلی و سینیٹ سے منظوری کے عمل میں بھی شریک تھے اب انگلی کٹواکر شہیدوں میں نام لکھوانے کی ضرورت نہیں۔ مجھ قلم مزدور نے پیکا ایکٹ پر صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد اپنے وی لاگ اور پھر ایک مختصر فیس بک پوسٹ میں کچھ سوالات اٹھائے جس کا پیپلزپارٹی کے دوستوں نے نہ صرف برا منایا بلکہ ایک دوست نے پیغام بھیجا مرشد حیدر جاوید سید بھی پیکا ایکٹ پر فلاں ضیائی نطفے کی طرح سوچ بول رہے ہیں۔ اس عزت افزائی پر شکر گزار ہوں ویسے یہ پہلا موقع نہیں اس سے قبل بھی اختلافی آرا اور پیپلزپارٹی کی مروجہ سیاست پر تنقید کا زیادہ تر جیالے دوست برا مناتے اور آڑے ہاتھوں لیتے رہے۔ اس کے باوجود میں اب بھی پیپلزپارٹی سے بطور جماعت خیر کی توقع رکھتا ہوں کیونکہ اچھی بری پیپلزپارٹی ہی ہے جو چند غلطیوں کے باوجود اب بھی سنٹرل لبرل جماعت ہے۔ جماعت کے اندر جمہوریت کتنی ہے میں اس پر اب سوال نہیں اٹھارہا کیونکہ تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اس امر سے آگاہ ہوں کہ مسلمان ہندو سندھ کا ہو یا فارس و عرب اور افریقہ کا سب کو کنٹرولڈ جمہوریت اور نامزدگیاں ہی پسند ہیں خود اسلام کے دو بڑے مکاتب فکر بھی نامزدگیوں پر ہی چلے۔ ایک آدھ بار اجتماعی عوامی سوچ اور مطالبہ پر خلافت کا منصب ایک شخصیت نے سنبھالا لیکن ان کے ساتھ کیا ہوا یہ مسلم تاریخ میں من و عن درج ہے۔ خیر تاریخ کا یہ اکلوتا واقعہ میرا موضوع نہیں۔ پی پی پی کے دوستوں نے گزشتہ روز میرے وی لاگ اور فیس بک پوسٹ پر اپنے دیرینہ مخالفین اور میڈیائی ناقدین کو صحافتی طوائفیں اور گماشتے قرار دیا۔ مجھے یاد دلایا کہ کیسے محترمہ بینظیر بھٹو بیگم نصرت بھٹو اور خود بھٹو صاحب کی ذرائع ابلاغ کے ذریعے کردار کشی کی گئی۔ میں آگے بڑھنے سے قبل جیالے دوستوں کے سامنے 3 سوال رکھتا ہوں۔ حسین حقانی اسلامی جمہوری اتحاد کے اس میڈیا سیل کے کرتا دھرتا تھے جس نے بیگم بھٹو اور محترمہ بینظیر بھنٹو کے خلاف غلیظ پروپیگنڈہ کیا۔ یہی حسین حقانی آگے چل کر پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں وفاقی سیکرٹری اطلاعات اور سری لنکا میں سفیر بنائے گئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اسی حسین حقانی کو امریکہ میں سفیر بنایا گیا۔ سید اقبال حیدر مرحوم کراچی کے معروف قانون دان تھے یہ معراج محمد خان مرحوم کے ہمراہ پیپلزپارٹی سے الگ ہوئے دونوں پاکستان قومی محاذ آذادی کے نام سے جماعت بنائی انہی اقبال حیدر کے ہارون مینشن زینب النسا سٹریٹ پر کراچی پر واقع دفتر میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر مٹھائی تقسیم کی گئی یہی نہیں ایک مختصر تقریب بھی منعقد ہوئی اس میں اقبال حیدر نے ذوالفقار علی بھٹو کے لئے جو زبان برتی اور مثال دی میں یہاں لکھنے سے قاصر ہوں اقبال حیدر بعدازاں پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور بنائے گئے ۔ سیاسی عمل آگے بڑھنے کا نام ہے پی پی پی بھٹو کی قاتل جماعتوں کیساتھ ایم آر ڈی میں بیٹھی ۔ بینظیر بھٹو کو قومی اسمبلی میں گالیاں دلوانے والی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بھی بیٹھی جس کے سربراہ میں نوازشریف انہیں سکیورٹی رسک قرار دیتے تھے اسی مسلم لیگ (ن) سے میثاق جمہوریت کیا۔ 2008 میں اس کے ساتھ وفاق اور پنجاب میں مخلوط حکومت بنائی۔ مخلوط وفاقی حکومت کے وزیر خزانہ اسحق ڈار نے پہلی ہی پریس کانفرنس میں پی پی پی کو ” گھوڑے ” لگوادیا۔ نوازشریف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ گئے میمو گیٹ سکینڈل میں۔ تمہید طویل ہوگئی۔ مجھے جیسے قلم مزدوروں کو امید تھی کہ صدر مملکت پیکا آرڈیننس پر دستخط کی بجائے حکومت کو مشورہ دیں گے کہ اس پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے اتفاق رائے کہ عمل کے بعد بل پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پیش کراکے منظور کرالیا جاتا تو کوئی قیامت نہ ٹوٹ پڑتی ۔ اپنے مخالفین و ناقدین کے لئے جیالے بھی بازاری زبان ہی استعمال کرتے ہیں ان کا حق ہے ہم ان کی صفائی کیوں دیں۔ ہاں یہ درست ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کا ننانوے فیصد حصہ روز اول سے پیپلزپارٹی کا مخالف تھا اب بھی ہے اس کے باوجود پی پی پی کو تنقید برداشت کرنی چاہیے۔ پی پی پی سیاسی جماعت ہے اچھی بری سیاسی جماعتوں میں مجھے آج بھی بہتر لگتی ہے جس جیالے دوست نے مجھے واٹس ایپ پیغام میں کسی ضیائی نطفے کا ہم خیال قرار دیا اس کا شکر گزار ہوں کہ اس نے میڈیائی طوائف نہیں قرار دے دیا۔ پیکا ایکٹ بارے پہلے دن سے آج تک میری رائے ایک ہی ہے اس میں رتی برابر تبدیلی نہیں ہوئی۔ اس سے انکار نہیں کہ ذرائغ ابلاغ کا بڑا حصہ پی پی پی کا اس لئے مخالف ہے کہ اکثریت کا تعلق دائیں بازو سے ہے۔ دایاں بازو کبھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا وظیفہ خوار تھا پھر اسے مسلم لیگ (ن) نے بذریعہ آئی جے آئی گود میں لے لیا اب یہ دو حصوں میں تقسیم ہے ایک حصہ مسلم لیگ (ن)کے ساتھ ہے دوسرا تحریک انصاف ہے۔ پی پی پی آج وفاق میں ایک اتحادی حکومت کا حصہ ہے صدر مملکت، چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے مناصب اسے اسی اتحاد کی بدولت ملے ہیں موجودہ حکومت کا کوئی بھی جرم یا غلط کام ہو پی پی پی اس میں ساجھے دار سمجھی جائے گی یہ کہنا کہ ہم فیصلہ سازی میں شریک نہیں بس منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے ہے۔ کیا ارسا کے قانون میں ترمیم صدر مملکت کی منظوری کے بغیر ہوگئی؟ میڈیا اور سوشل میڈیا کو سماجی اخلاقیات رواداری وغیرہ کی پابندی کرنا چاہیے لیکن یہ صرف میڈیا اور سوشل کیوں کریں سیاستدان اعلی و ارفع مخلوق ہیں کہ ان پر سماجی اخلاقیات و رواداری کی پابندی لازم نہیں۔ کالم کے دامن میں گنجائش ہوتی تو پچھلے دس برسوں کے دوران پی پی پی اور (ن) لیگ کے رہنمائوں اور فعال کارکنوں کی ایک دوسرے پر کی گئی گل فشانیوں کی چند مثالیں پیش کرتا۔ دستیاب اہل صحافت بھی کعبہ کے پالے ہرگز نہیں پراپرٹی ڈیلروں، مخبروں ایجنسیوں کے سدھائے بنائے تحقیقاتی صحافیوں وغیرہ کی بھرمار ہے مگر یہ مشکل سے 10 فیصد ہیں 90 فیصد بہرطور قلم مزدور ہیں۔ کیا پیپلزپارٹی نے پچھلے 10 برسوں میں منعقدہ اپنی سنٹرل کمیٹی کے کسی اجلاس میں مطالبہ کیا کہ میڈیا ورکرز کو ویج بورڈ ایوارڈ کے مطابق تنخواہیں اور مراعات دی جائیں؟ سوشل میڈیا پر سبھی جماعتوں کے کارکن ہمدرد اور مجاہدین بے لگام ہیں برسوں سے ان کا لموں میں عرض کررہا ہوں حکومت سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس کے مالکان سے بات کرے اور پاکستانی صارفین کے اکائونٹ شناختی کارڈ نمبر سے مشروط کردے۔ سوشل میڈیا کو سب سے زیادہ غلاظت پھیلانے کے لئے یہاں کس نے استعمال کیا؟ ہم آج تحریک انصاف کو تو اس کا مجرم قرار دیتے ہیں لیکن اس مجرم یا مجرموں کی تعلیم و تربیت کرنے والوںکانام نہیں لیتے حالانکہ دشنام طرازی اور گالم گلوچ کو اسی نے رواج دیا۔ اہل صحافت یقینا سو فیصد دودھ کے دھلے نہیں ان معروضات کا مقصد یہ ہے کہ ہم پی پی پی کے کارکن نہیں نہ بھٹوز کے مزارات کے مجاور ہیں ، قلم مزدور ہیں اپنی فہم کے مطابق رائے کا اظہار ہمارا حق ہے ایک اختلافی رائے پر ضیائی نطفوں کی طرح سوچنے بولنے والا کہہ دینا عجیب لگا اور دکھ بھی ہوا فی الوقت یہی عرض ہے کہ نہ چھیڑ ملنگاں نوں۔

مزید پڑھیں:  بھکاری فری پشاور