شیخ مکتب ہے اک عمارت گر

اقوام متحدہ کے بین الاقوامی دستور برائے انسانی حقوق کی دفعہ26 کے تحت تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے، اس دستور کے مطابق عوام کو مفت اور لازمی بنیادی تعلیم فراہم کرنا ہر ریاست کا فرض ہے، قارئین کرام ہم سب جانتے ہیں کہ تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے سے ایک فرد اور ایک قوم خود آگاہی حاصل کرتی ہے، اور یہ عمل اس قوم کو تشکیل دینے والے افراد کے احساس و شعور کو نکھارنے کا ذریعہ ہوتا ہے، تعلیم ہر انسان چاہے وہ امیر ہو یا غریب،مرد ہو یا عورت کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے، یہ انسان کا ایسا حق ہے جو کوئی اس سے نہیں چھین سکتا، دیکھا جائے اگر تو انسان اور حیوان میں فرق تعلیم ہی کی بدولت ہیں تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کیلئے ترقی کی ضامن ہے یہی تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے، تعلیم وتعلم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پہلی ہی وحی میں اللہ پاک نے چھ مرتبہ پڑھنے اور لکھنے کی بات کی، تعلیم کا لفظ عربی زبان کے لفظ علم سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے کسی چیز کا جاننا، پہچاننا، یقین کی حد تک حقیقت کا ادراک علم کہلاتا ہے جب کہ تعلیم سے مراد وہ علم ہے جو فرد باضابطہ طور پر کسی تعلیمی ادارے میں حاصل کرتا ہے، تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف سکول،کالج ،یونیورسٹی یا کسی مدرسے سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ اس کا اصل مقصد انسان کو باشعور اور مہذب بنانا ہے، تعلیم وہ زیور ہے جو انسان کا کردار سنوراتی ہے اور اصل تعلیم تو اخلاقی تعلیم و تربیت ہے اور اسی تعلیم کی وجہ سے انسانی کی زندگی میں خدا پرستی، عبادت ،محبت، خلوص ، ایثار ، خدمت خلق ،وفاداری اور ہمدردی کے جذبات بیدار ہوتے ہیں، اخلاقی تعلیم کی وجہ سے صالح او رنیک معاشرہ کی تشکیل ہوتی ہے، تعلیم کا اولین مقصد ہمیشہ انسان کی ذہنی،جسمانی او روحانی نشوونما کرنا ہے ، ہم بھی اقوام متحدہ کے فرمان بردار اور اچھے رکن ہونے کی حیثیت سے تعلیم کے عالمی دن کو شایان شان طریقے سے منایااس موقع پر تعلیم و تعلم سے متعلق مختلف عنوانات پر مضمون نویسی، تقاریر، اشتہار سازی اور سوالات جوابات کے مقابلے کروائے گئے، اور خاص ہدایت یہ ہے کی گئی کہ ان کی تصاویر بھیجی جائیں، آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس سب کا مقصد محض دکھاوا، نمود و نمائش اور غریب ملک کے سرکاری وسائل کا ضیاع ہی ہے، اس کا مقصد محض خود کو دھوکے میں رکھنا اور قوم کے مستقبل کے ساتھ سنگین مذاق کرناہی ہے، کیا ہمیں ایسے مقابلے کروانے کے لئے کسی خاص دن کا انتظار کرنا یا کسی کے حکم کا پابند ہونا ضروری تھا، ایک ہی دن میں محض رسمی کاروائی کے لئے یہ سب کرنا کہاں کا انصاف ہے، اصل سوال تو یہ ہے کہ اس تعلیمی نظام کے نتیجے میں ہم معاشرے کو کیا دے رہے ہیں، پڑھتے جا رہے ہیں، ڈگریاں تقسیم کرتے جا رہے ہیں، مگر زندگی کے ہر شعبے میں ہم زوال کا شکار کیوں ہیں، کوئی ایک ایسا شعبہ بتا دیں کہ جس میں ہم کسی بھی طرح کے عروج کو چھو رہے ہیں، میرا ایک شاگرد کریانہ منڈی میں تھوک کا کاروبار کرتا ہے، اس دن کہنے لگا کہ استاد جی میں نے ایم بی اے کیا ہے لیکن یقین کریں اس ڈگری کا میرے کاروبار میں مجھے رتی برابر فائدہ نہیں ہوا، جو کچھ پڑھایا گیا اس کا عملی میدان میں کوئی کام نہیں اور جو کچھ میں نے ادھر کام کرکے سیکھا ہے اس میں سے کچھ بھی پڑھایا نہیں گیا، ہمارے طلبہ و طالبات ہر سال رٹے مار کر یا نقلیں کرکے دسویں اور بارہویں کے امتحانات میں امتیازی درجے حاصل کرتے ہیں، ہر شہر اور اس کے مضافات میں ان ہونہار طلبہ وطالبات کے اشتہار لگائے جاتے ہیں، بڑی بڑی تصاوہر چسپاں ہوتی ہیں، اور یہ سلسلہ ہم سب جانتے ہیں سالہا سال سے اسی طرح جاری ہے، بڑے بڑے مشہور تعلیمی ادارے ان بچوں کو مفت تعلیم دینے کی پیش کش کرتے ہیں جسے قبول کرکے یہ بچے من پسند تعلیمی اداروں میں داخلے بھی لے لیتے ہیں، ان کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے اب دنیا فتح کر لی ہے،اب اعلی ملازمت حاصل کرنے سے ان کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی ہے، لیکن جب وہ عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ حقیقت کچھ اور ہے، ہر ادارے میں نوکری کے تحریری امتحان میں تو وہ کسی نہ کسی طرح کامیاب ہو جاتے لیکن ہر زبانی امتحان میں ان کو منہ کی کھانی پڑتی ہے، جو بھی سوال ان سے کیا جاتا ہے، جواب دینا تو درکنار ان کو سوال ہی سمجھ میں نہیں آتا، ان کی سندیں اور ڈھیروں ڈھیر نمبر ان کے کسی کام نہیں آتے، ان کو سندیں دی گئیں، اعتماد نہیں دیا گیا، انگریزی کے مضمون لکھائے گئے، انگریزی بولنا نہ سکھائی گئی، ریاضی میں پورے سو نمبر لینے والے اپنی ہی زمین کا رقبہ نہیں نکال سکتے، اردو میں پورے نمبر لے کر بھی وہ ایک درخواست نہیں لکھ سکتے، یہ نمبر لینے کی مشینیں تو بن جاتے ہیں ، ان کے پاس معلومات کا ڈھیر بھی ہوتا ہے لیکن علم کس شے کا نام ہے اس سے یہ نابلد ہی رہتے ہیں، اب یہ بچے مایوسی اور انجانے سے عدم تحفظ کا شکار ہونے لگتے ہیں، اور ہر بچہ اس ملک میں اپنے مستقبل کو تاریک دیکھ کر کسی نہ کسی طرح اس ملک سے فرار حاصل کرنا چاہتا ہے، اور چھوڑیں یہ سب مجھے یہ بتائیں کہ کیا اس تعلیم کے نتیجے میں ہم نے ان بچوں کو باشعور اور ذمے دار پاکستانی شہری بنایا، کیا ہم ان کو ایک سچا مسلمان بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں، کیا ہم ان کو ایک درد دل رکھنے والا انسان بنا سکے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا اس تعلیم کے نتیجے میں وہ اصل اور اخروی کامیابی حاصل کر سکیں گے، یقینا ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے، میں علم نفسیات کی ایک تحقیق کے نتائج دیکھ رہا تھا کہ جس میں یہ کہا گیا تھا کہ اسی فیصد سے زیادہ نمبر لینے والے کسی بھی بچے کو مستقبل میں کسی قسم کا کوئی اہم عہدہ نہیں دینا چاہیے، کیونکہ ذہنی اور جذباتی اعتبار سے یہ ایک عام بچہ نہیں ہے، اتنے نمبر لینے کے لئے اس کی تربیت ایک خاص تناؤ میں ہوئی ہے، اس کے والدین احساسِ کمتری کا شکار تھے، اس بچے نے کھیل کود اور تفریح میں بہت کم وقت گزارا ہے، اس نے فطرت کا مطالعہ نہیں کیا، یہ ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں سے دور رہا ہے، اس نے صرف نصابی کتب کے رٹے مارے ہیں، اس میں محرومیاں ہیں اور اگر یہ کسی اہم عہدے پر فائز ہوتا ہے تو یقینا جانے انجانے میں یہ ان محرومیوں کا بدلہ عوام الناس سے لے گا، حکیم الامت حضرت علامہ اقبالکے اس خوب صورت شعر کو بھی ذہن نشین کر لیں،
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی

مزید پڑھیں:  پاک امریکہ تعلقات