مذاکرات سے احتراز مسئلے کا حل نہیں

حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کی معطلی کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے خود تحریک انصاف کی جانب سے اپنے دور حکومت میں پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے کی نظیر پیش کرتے ہوئے تحریک انصاف کو عدالتی کمیشن کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے اور پارلیمانی کمیشن پر اتفاق کی تجویز دی ہے جبکہ تحریک انصاف نے ان کی تجویز رد کردی ہے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کھلے دل کے ساتھ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات میں بیٹھے اور انہیں مذاکرات کیلئے ساز گار ماحول فراہم کیا لیکن پی ٹی آئی مذاکرات سے بھاگ رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے بہت نیک نیتی سے پی ٹی آئی سے مذاکرات کئے ۔ ہماری کمیٹی نے کہا کہ اپنے تحریری مطالبات دیں۔ شہباز شریف نے پی ٹی آئی کو کمیشن کی بجائے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئیں بیٹھیں، ہم ہائوس کمیٹی بنانے کو تیار ہیں، ہم مذاکرات کیلئے صدق دل سے تیار ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ جو مذاکرات تھے، اس کیلئے ہم نے ان کی پیشکش کو قبول کیا اور ایک کمیٹی بنائی گئی، پھر سپیکر کے توسط کے مذاکرات شروع ہوئے۔ کمیٹی کے کہنے پر پی ٹی آئی نے مطالبات لکھ کر دئیے، جس کا جواب حکومتی کمیٹی نے تحریری طور پر دینا تھا، تاہم28 تاریخ کو میٹنگ طے تھی، جس سے انکار کرکے وہ بھاگ گئے۔ انہوں نے کہا کہ کیا یہ طریقہ درست نہیں ہے کہ تحریری طور پر ملنے والے مطالبات کا تحریری طور پر ہی جواب دیا جائے۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی وزیراعظم کی جانب سے ہائوس کمیٹی بنانے کی تجویز مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہباز شریف کی گفتگو غیر متعلقہ ہے کسی ایسی آفر پر غور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا کہ پی ٹی آئی وزیراعظم کی اس پیش کش کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے ۔ شہباز شریف کے پاس یہ سکرپٹ بہت دیر سے پہنچا ہے یعنی انہوں نے بہت دیر کردی۔اگرچہ تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں ڈیڈ لاک ہے لیکن کچھ اشاروں سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ گویا معاہدہ اور اتفاق نہ سہی کسی درجے مفاہمت ضرور ہوئی ہے حکومت قبل ازیں پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کی تقرری میں لیت و لعل سے کام لے رہی تھی ان مذاکرات کے دوران ہی تحریک انصاف کے صوبائی صدر کو یہ عہدہ دیا گیا یہ درست ہے کہ دستور کے مطابق یہ عہدہ حزب اختلاف ہی کا حق تھا ایک اور پیشرفت خیبر پختونخوا کے آئی جی کا تبادلہ ہے ایک اور اعلیٰ عہدیدار کے تبادلے کی افواہیں ہیں جس سے قطع نظر آئی جی کے تبادلے کو وفاق کی جانب سے خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اور تحریک انصاف کے ایک مطالبے کو تسلیم کرنا قرار دیا جا سکتا ہے علاوہ ازیں بھی دیکھا جائے تو سیاسی طور پر اب گرمجوشی پر مبنی مخالفت میں کمی آئی ہے تحریک انصاف نے آٹھ فروری کو پہلے پنجاب کے گھیرائو کا اعلان کیا مگر اب فیصلہ صوابی میں جلسہ کرنے کا ہے ممکن ہے وقت کے ساتھ ساتھ دیگر اس طرح کے فیصلے اور اقدامات بھی سامنے آئیں جسے تعمیر اعتماد کے اقدامات کے طور پر دیکھا جا سکے ۔ جہاں تک حکومت کے خلاف سیاسی جماعتوں کے کسی بڑے اتحاد کی کاوششوں کا تعلق ہے یہ معمول کا سیاسی عمل ہے اگر دیکھا جائے تو یہ تحریک انصاف سے زیادہ حکومت کے مفاد میں ہے کیونکہ مشاورت کی بنیاد وسعت پذیر ہونے سے حکومت کے حوالے سے نرم اور معتدل رویہ اور ہوشمندانہ فیصلوں کا امکان بڑھ جاتا ہے جب تک اس اتحاد کی تشکیل ہو اور یہ اتحاد دبائو بڑھانے کے قابل ہو حکومت کو مزید وقت مل سکتا ہے تحریک انصاف کی جانب سے مذاکرات کے دو تین ادوار کے بعد تحریری طور پر حکومتی جواب کے حصول کے بعد مذاکرات سے انکار سے جلد بازی ظاہر ہوتی ہے یہی اقدام اگر تحریری جواب کے حصول اور حتمی تحریری انکار کے بعد کیا جاتا تو اتمام حجت بھی ہو جاتی حکومت کا تفصیلی و تحریری جواب سامنے آنے کے بعد اگر مگر چونکہ چنانچہ کی بھی گنجائش نہ رہتی اور تو جیہات پیش کرنے کا راستہ بھی بند ہوجاتا دیکھا جائے تو ایسے معاملات پر ڈیڈ لاک ہے کہ اس حوالے سے گو عدالتی کمیشن کا قیام کیا جائے یا پھر پارلیمانی کمیشن بنایا جائے نتیجہ خیزی کا سوال باقی رہنے ہی کا امکان ہے اس کے باوجود کہ ڈیڈ لاک کی کیفیت ہے سیاسی بات چیت میں پس پردہ دروازوں اور رابطوں کا طریقہ کار باقی ہے فریقین اگر اس راستے کا انتخاب کریں اور پس پردہ سلسلہ جنبانی سے کام لیں تو جن معاملات پر عوامی سطح پر موقف کے اظہار میں مشکلات ہوں ان معاملات میں بھی مفاہمت ناممکن نہیں جب تک فریقین کے درمیان دوبارہ معاملت شروع نہیں ہوتی سیاسی فضا کو مکدر رکھنے سے گریز بہتر حکمت عملی ہو گی اور اس وقت یہ ملک و قوم حکومت اور خود تحریک انصاف کے اپنے بھی مفاد میں ہے۔

مزید پڑھیں:  کچھ بھی نہیں بدلا